’’ہم‘‘ نے ٹیلی ویژن کے لیے اپنے نئے ڈرامے ’’کروٹ‘‘ کا سکرپٹ ختم کیا تو تہجد کا وقت گزر چکا تھا۔ فجر سے پہلے میرے آقا سرکار دو عالم ؐکی یاد نے میرے کمرے سمیت میرے دل، میرے وجود میری روح کو مُشکِ عنبر کی طرح مہکا دیا تھا۔ جگنوئوں کی سی میٹھی میٹھی روشنی نے میرے ارد گرد پورے ماحول میں ایک میٹھا میٹھا سا ،بھینا بھینا سا اُجالا کر دیاتھا۔ شیلف میں سجی ہوئی آقاؐ کی سیرت پر لکھی گئی کئی کتابوں میں سے ایک کتاب پر شہادت کی انگلی رکھ کر اسے باقی کتابوں سے الگ کیا۔ کتاب کھولی تو وہ باب کُھل گیا جو میرے آقاؐ کے اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں فرمان اور واقعات سے لو دے رہا تھا، مہک رہا تھا، چمک رہا تھا، روشن تھا ۔میرے آقاؐ کی مبارک ہستی کی طرح ،آپؐ کی حیات طیبہ کی طرح ،آپؐ کے افکار، کردار، اور اقوال کی طرح کہ میرے ماں باپ ،میری اولاد سرکارؐ پر لاکھوں کروڑوں بار قربان کہ رُوئے زمین پر آپؐ سا کسی نے نہ کبھی دیکھا نہ دیکھنا نصیب ہو گا۔ میرے آقاؐ نے فرمایا: ’’خبردار جس کسی نے کسی معاہد (اقلیتی فرد) پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا، حق چھینا یا اس کو تکلیف دی یا اس کی مرضی کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو بروز قیامت میں اس کی طرف سے (مسلمان کے خلاف) جھگڑوں گا…‘‘ ذرا میرے آقاؐ کے الفاظ پر غور کریں کہ انصاف کا حکم اس حدیث میں کتنا واضح ہے کہ ظلم کرنے والا مسلمان ہی کیوں نہ ہو اور جس کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہو وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو مگر میرے آقاؐ مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوں گے جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ،وہ اگر اقلیت سے بھی ہو تو اسی کا ساتھ دیں گے۔ سرکار ؐ کو یوں ہی تو نہیں سارا جہان دل سے صادق و امین تسلیم کرتا تھا اور کرتا ہے۔ یہ میرے آقاؐ کی انصاف پسندی ہی تھی اور انصاف کا کڑا معیار ہی تھا کہ سرکارؐ نے ایک موقع پر انصاف کے ترازو کی عظمت وسربلندی کو ابدالآبادتک برقرار رکھنے کیلئے فرمایا کہ ’’خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو اس کا بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا…‘‘ اسلام عرب کے بے آ ب وگیاہ ریگستانوں سے نکل کر حیرت انگیز سُرعت سے اس دھرتی پر چہارسو پھیلتا چلا گیا، تو یوں ہی نہیں پھیلتا چلا گیایہ میرے آقاؐ کے کردار کی عظمت تھی جس کی طاقت اسلام کو مہمیز لگا رہی تھی اور ازلوں تک لگاتی رہے گی۔ اقلیتوں سے میرے آقاؐ کے حُسنِ سلوک اور مسلم ہو کہ غیر مسلم انصاف کے انتہائی کڑے معیارہی کا نتیجہ تھا کہ غیر مسلم بھی تمام تر مذہبی اختلافات کے باوجود میرے آقاؐ کا صدقِ دل سے احترام کرتے تھے، صدقِ دل سے سرکارؐ کو صادق وامین تسلیم کیا کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ خوب جانتے تھے کہ حضرت محمدؐ نہ ظلم کرتے ہیں نہ زیادتی اور حقوق چاہے اقلیتوں کے ہی کیوں نہ ہوں ان کی حفاظت کے واضح احکامات اللہ کے رسولؐ نے دے رکھے ہیں۔ یہاں تک کہ دل میں سمندروں کی گہرائیوں سا بیر رکھنے والے یہودیوں تک کا میرے آقاؐ کے قول اور کردار پر اعتبار کا یہ عالم تھا کہ ایک جنگ میں آپؐ کا مخالف ایک یہودی جب مرنے لگا تو لوگوں نے اس سے پوچھا کہ ’’تیری لمبی چوڑی جائیداد ہے اس کا وارث کون ہو گا؟ یہودی کے منہ سے فوراً نکلا کہ میرے بعد میری جائیداد کے معاملات محمدؐ کے حوالے کرنا… سبحان اللہ… سبحان اللہ… ذرا سوچیے کہ سرکارؐ کے دور میں اقلیتوں کے حوالے سے انصاف اور حُسن سلوک کا معیار کیا تھا کہ جس کے باعث اقلیتوں کا ایسا اعتماد میرے آقاؐ پر قائم ہوا۔ میرے آقاؐ اور مسلم ریاست پر غیر مسلموں، اقلیتوں کے اعتماد کا اس سے بڑھ کر کیا اعتراف ہو گا کہ بدترین مخالف یہودی بھی مرتے ہوئے اپنی جائیداد کی حوالگی کے معاملے میں اللہ کے آخری رسول محمد ﷺکا نام لیتا ہے۔ خلیفہ ثانی حضرت عمرؓ نے جب ایک ضعیف وبے روزگار یہودی کا بیت المال سے وظیفہ مقرر کیا تھا تو وہ بھی میرے آقاؐ کے بتائے ہوئے انہی راہنما اصولوں کی پیروی تھی۔ کتاب کا صفحہ پلٹا تو موذن، نماز نیند سے بہتر ہے… نماز نیند سے بہتر ہے… الصلوٰۃ خیرمن النوم… الصلوٰۃ خیرمن النوم کے سحر انگیز کلمات ادا کر رہا تھا۔ ایسے میں میری نظر اگلے صفحے پر درج اقلیتوں کے حقوق اور انصاف کے تقاضوں کے حوالے سے ایک اور واقعے پر پڑی تو نہیں خبر کہ اسے پڑھتے ہوئے کب کیسے ضبط کے سارے بند ٹوٹ گئے۔ اپنے آقاؐ کو یاد کرتے ہوئے آنکھوں نے آنسوئوں سے وضو شروع کر دیا ۔ایسا وضو جس میں آنکھوں سے بہنے والے نمکین پانی کے بے بہا بہانے پہ بھی کوئی پابندی نہیں ہوا کرتی۔ اذان ختم ہو چکی تھی۔ ماحول کو ایک خاص طرح کی مہکی ہوئی خاموشی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ آقاؐ کی حیات طیبہ کے واقعات سے منور کتاب کے صفحات، آقاؐ کی یاد میں بہنے والے اشکوں سے بھیگ رہے تھے ۔آقاؐ کی عظمت وبلندی کے احساس نے دل کے سارے تار چھیڑ دیے تھے۔نہیں خبر کب تک اپنے آقاؐ کی یاد کے قدموں میں بیٹھا انہیں یاد کرتا رہا اورآنکھوں کا آنسوئوں سے وضو جاری رہا …!!!