ہسٹری میوزیم لندن اور پاکستانی طلباء

پچھلے کالم میں میں قارئین کو نیچرل ہسٹری میوزیم لندن میں پاکستانی طلباء سے ہونے والی ملاقات کے بارے میں بتا رہا تھا جب زندگی سے بھرپور آنکھوں میں اپنے اور اپنے وطن کے روشن مستقبل کے حسین خواب لیے طلباء کی آنکھیں یک دم گفتگو کے دوران اپنے ایک ساتھی طالبعلم کے ذکر پر بھیگ گئی تھیں ۔ایسٹ لندن کی ایک یونیورسٹی میں پڑھنے والے اس طالبعلم کے والدین نے اسے اپنا پیٹ کاٹ کر برطانیہ پڑھنے کیلئے بھیجا تھا۔ جب وہ طالبعلم چھٹیاں گزار کر اپنی کلاسز پڑھنے کیلئے دوبارہ لندن پہنچا تو اسے لندن ائیرپورٹ پرشک کی بنیاد پہ روک لیا گیا۔ پاکستانی طالبعلم کے سفری کاغذات مکمل تھے، فیس پوری ادا کی ہوئی تھی ، اسائنمنٹس پوری تھیں، کالج کا ہالی ڈے لیٹر بھی اس کے پاس تھا ،کالج کی حاضریاں پوری تھیں، نوجوان طالبعلم کا کردار برطانیہ میں تعلیم کے دوران قابلِ رشک تھا، کبھی ذرا سی بھی قانون شکنی کی کوئی شکایت اس کے نام پر درج نہیں تھی، اور ان ساری باتوں کی تصدیق اس کے کالج نے آفیشلی فوراً کر بھی دی تھی مگر پھر بھی نوجوان پاکستانی طالبعلم اہلکاروں کو مطمئن نہیں کر سکا تھا ،نہ ہی ان کے اپنے ملک کے اداروں کے مہیا کیے گئے کاغذات انہیں مطمئن کر سکے، نتیجہ نوجوان طالبعلم کی قید کی صورت میں نکلا۔ مالی لحاظ سے اوسط درجے کے گھرانے کے طالبعلم اور اس کے اہل خانہ کے پاس فوری اتنی رقم نہیں تھی کہ اس سلسلے میں کسی وکیل کی خدمات لی جا سکتیں،لہٰذا اس کے انہی پاکستانی ساتھیوں نے مل کر اس کے لیے چندہ کر کے ایک وکیل کیا اور یوں تقریباً 16 دن کے بعد اس کی رہائی عمل میں آئی۔ قید کے دوران اسے کسی سے ملنے کی اجازت نہیں تھی البتہ فون کی سہولت دستیاب تھی۔ پاکستانی طالبعلم کی روداد سن کر نیچرل ہسٹری میوزیم کے اس کیفے کا ماحول ،جہاں میں پاکستانی طلباء کے ساتھ بیٹھا تھا ،خوشگوار موسم کے باوجود بہت اداس ہو چکا تھا۔ پاکستانی طالبعلموں نے مزید بتایا کہ جب اس نوجوان کو 16دن بعد باعزت رہا کیا گیا تو معذرت کا ایک لفظ تک نہیں کہا گیا اور بغیر کسی سبب کے اس قدر ذہنی اذیت میں مبتلا رکھنے کے باوجود ،وکیل کے اخراجات کا بوجھ ڈالنے کے باوجود کسی قسم کی شرمندگی کا بھی کوئی اظہار نہیں کیا گیا جب کہ وہ نوجوان اپنی فیس کے ذریعے بھی خاص رقم اس ملک میں ادا کر رہا تھا، جویقینا تعلیمی ادارے کیلئے منافع تھا۔ اس واقعے کے بعد سے آج تک وہ نوجوان اور اس کے اہلِ خانہ اس ’’شاک‘‘ سے باہر نہیں آسکے تھے ۔اس واقعے سے پہلے نوجوان طالبعلم کے گریڈز بہت شاندار ہوا کرتے تھے لیکن اس واقعے کے اثرات اور خوف نے اس کی ذہانت کو جیسے زنگ لگا دیا ہو۔ اس کے ساتھی بتا رہے تھے کہ وہ اب بھی راتوں کو اٹھ کر اچانک بیٹھ جاتا ہے اور اس واقعے کو یاد کرنے لگتا ہے اوریہ بتاتے ہوئے وہاں موجود کئی نوجوان آبدیدہ تھے کہ انہی حالات کی وجہ سے وہ اپنی بوڑھی ماں کی وفات پر پاکستان بھی نہیں جا سکا۔ اس کی ماں اپنے بیٹے کو بڑا آدمی بن کر پاکستان کی خدمت کرنے کے خواب دل میں لیے آخری بار اسے دیکھے بغیر ہی اس دنیا سے کوچ کر گئی تھی ۔چندلمحوں کی خاموشی کے بعد ایک طالبعلم تقریباً چیخ پڑا ’’یہ ہم سے نفرت کرتے ہیں ۔ہمیں آگے بڑھتے دیکھنا ہی نہیں چاہتے اس لیے خصوصاً پاکستانی طالبعلموں کے لیے علم کے سارے رستے بند کرتے چلے جا رہے ہیں‘‘ ایک دوسرا نوجوان جذباتی انداز میں بولا ’’جتنی مشکل آج پاکستانی طالبعلموں کو جھیلنی پڑتی ہے اور بھاری فیسوں کی ادائیگی کے باوجود، اس کی کوئی مثال پہلے نہیں ملتی‘‘ ماحول کی اداسی جذباتی حدت میں تبدیل ہوتی چلی جا رہی تھی کہ ایسے میں گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے گہری آنکھوں والے نوجوان نے انتہائی سنجیدگی سے ایک سوال فضا میں اُچھال دیا ’’یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے ساتھی کے ساتھ بہت زیادتی ہوئی ہے ،یہ بھی ٹھیک ہے کہ سب سے زیادہ امتیازی سلوک کا نشانہ پاکستانی طالبعلم بنتے ہیں لیکن ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ پاکستانی مسلمان طالبعلم ہی کیوں۔۔؟ بنگلہ دیشی بھی تو پڑھتے ہیں، ہندوستانی مسلمان طالبعلم بھی تو بے خوف یہاں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ آخر ساری دنیا کو ہمی سے اللہ واسطے کا بیر کیوں ہے؟ اور پھر یہاں آنے والا طالبعلم صرف طالبعلم نہیں ہوتا ان کا کسٹمر بھی ہوتا ہے جس سے یہ خوب مال بھی بناتے ہیں تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ اپنے گاہک سے ،جو منافع دیتا ہے ،جس سے خوشحالی آتی ہے کوئی ایسا سلوک کیوں روا رکھے گا؟ ‘‘گہری آنکھوں والے خاموش پاکستانی طالبعلم نے جب بولنا شروع کیا تو ماحول پہ ایک خاموشی سی چھا گئی ۔اس کی مدلل باتوں کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ بولتا چلا جا رہا تھا ’’ہمیں سارا ملبہ تعصبات اور دوسروں پر ڈالنے کے بجائے اپنے گریبان میں بھی جھانکنا چاہیے ۔اپنے رویوں پر بھی غور کرنا چاہیے ۔اپنے امیج کو درست کرنے کیلئے بھی کچھ تگ ودو کرنی چاہیے اور ہمارے بارے میں جو خوف دنیا کے دل میں بیٹھ گیا ہے اس خوف کو کم کرنے کی بھی شدید ضرورت ہے ‘‘نیچرل ہسٹری میوزیم کے اہلکار ’’میوزیم بند ہونے جا رہا ہے‘‘ کی آوازیں لگارہے تھے ۔جب وہاں سے اٹھتے ہوئے اسی گہری آنکھوں والے نوجوان نے شدید جذباتی انداز میں جھلملاتے آنسو پونچھتے ہوئے کہا کہ ’’جب ہمارے ملک میں ہونے والے دھماکوں کی خبریں دنیا بھر میں نہیں جایا کریں گی، جب یہاں ہونے والے بینک فراڈز اور انشورنس فراڈز میں پاکستانیوں کا نمبر بنگلہ دیش اور بھارت سے نیچے چلا جائے گا ،جب جعلی ویزوں اور جعلی کاغذات پہ پڑھنے کا جھانسہ دے کر پاکستانی ، برطانیہ میں آکر غائب ہونا کم کر دیں گے تو دیکھ لینا کہ ہمارے جینوئن طلباء کو اس قسم کے حالات سے بھی نجات مل جائے گی، وصی بھائی پاکستانیوں کے ساتھ اس ملک میں اور پوری دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اس میں سارا قصور صرف تعصبات کا نہیں بلکہ ہماری اپنی حرکات وعادات کا بھی ہے بلکہ سچ پوچھیں تو ہمارے ساتھ ہونے والے سلوک کے اصل ذمے دار ہم خود ہیں۔‘‘ میں نیچرل ہسٹری میوزیم سے نکل کر دریائے ٹیمز کے کنارے آگیا جو لندن میں مقیم تقریباً کروڑ کے لگ بھگ لوگوں کی زندگیوں کی طرح پرسکون اندازمیں بہہ رہا تھا کہ میرے موبائل پر میسج کی بیپ سنائی دی ۔میرے قریبی دوست طیب اعجاز کا میسج تھا جو مادرِ وطن میں ہونے والے تازہ دھماکے کی اطلاع کی اذیت سے بھرا ہوا تھا۔ میرے ذہن میں گہری آنکھوں والے جذباتی مگر مدلل پاکستانی طالبعلم کی باتیں گونج رہی تھیں اور میری نس نس میں بھری بے چینی سے بے نیاز وبے خبر میرے قدموں تلے دریائے ٹیمز پرسکون انداز میں بہہ رہا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں