ہمارے ہی اخبار ’’دنیا‘‘ میں کچھ دنوں قبل’’ اُسامہ گن‘‘ کے حوالے سے ایک دلچسپ خبر شائع ہوئی تھی بظاہر دلچسپ نظر آنے والی اس خبر کی تہہ میں اُترا تو دلچسپی اذیت میں تبدیل ہو گئی تھی۔ لب لباب یہ تھا کہ پاکستان کے کچھ علاقوں میں بچوں کی ایک کھلونا گن کافی مقبولیت اختیار کر گئی ہے اور فروخت کی غرض سے باہر سے منگوائی گئی اس کھلونا گن کا کوئی نام نہیں تھا مگر مقامی پاکستانی تاجروں نے صرف اس کی سیل بڑھانے کے لیے اس گن کو اسامہ گن کا نام دے دیا اور خوب مال بنایا۔ نہ اس کھلونا گن کو بیچنا جرم ہے ، نہ اس کو کوئی نام دینا۔ اسامہ کے بجائے چاہے اوبامہ گن کا ہی نام کیوں نہ دے دیا جائے اور تجارت کے ذریعے رزق حلال تو ہے ہی عین عبادت۔ اس ساری خبر میں قابل توجہ بات تاجروں کا اپنے مفاد اور منافع کیلئے اس گن کو اسامہ گن کا نام دینا ہے جو منافع کمانے کیلئے تجّار کی مخصوص سوچ کی عکاسی کرتا ہے کہ بیشتر تاجروں کو جہاں منافع نظر آجائے وہ اس پر ایسے ہی ٹوٹ پڑتے ہیں جیسے مکھیاں، زخم اور میٹھے کی تفریق کیے بغیر اپنی جبلی تسکین کے لیے اپنے ٹارگٹ پر ٹوٹ پڑتی ہیں۔ سو سب نہیں مگر بیشتر تجّار کے پیش نظر منافع اور مال بنانا ہی ہوا کرتا ہے اور یہی ان کا دین ایمان ہے۔ ان کے کاروبار اور تجارت سے معاشرے پر کیا منفی یا مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہوتے ہیں‘ اس پر پھر کبھی لکھوں گا کہ سب نہیں مگر بیشتر تاجر اس بارے میں غور وفکر کر کے اپنا وقت ضائع نہیں کرتے۔ اور اگر ان کی توجہ اس طرف دلوائی بھی جائے تو عموماً وہ اپنے منافع کی راہ میں آنے والی ہر اخلاقی رکاوٹ کا کوئی نہ کوئی جواز تراش لیتے ہیں جبکہ منافع کی راہ میں رکاوٹ بننے والی اخلاقیات کی، بیشتر تجار کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہوا کرتی ۔منافع سے ہٹ کر معاشرے کی روحانی، معاشرتی، سماجی قدروں کی حفاظت، اور نفاست اور ان میں بہتری کیلئے تاجر نہیں بلکہ حکومتیں فکر مند ہوا کرتی ہیں۔ سیاستدان، دانشور اور راہنما، ان پر غوروفکر کیا کرتے ہیں اور ریاستوں کا نظم ونسق چلاتے ہوئے ریاستی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر معاملے میں ایک پُرسکون، پُرامن معاشرے کا قیام پیش نظر ہوا کرتا ہے۔ لیکن جب تجار سیاستدانوں کے روپ میں ملک کا نظم ونسق چلانے لگ جائیں تو پہلے سے جاگیرداری کے چنگل میں جکڑے ہوئے ملک کی ایسی ہی بربادی ہوا کرتی ہے جیسے پاکستان کی ہوچکی ہے۔ اس موقعے پر اگر کوئی مجھے مایوسی پھیلانے کا طعنہ دے گاتو میںاس سے ضرور کہوں گا کہ ذرا دل کے کانوں سے 50 ہزار سے زیادہ مارے جانے والے پاکستانیوں کی مائوں بہنوں کے بین سننے کی کوشش کرے، ان بارہ کروڑ سے زیادہ پاکستانیوں کی طرف ضرور دیکھے جو بمشکل پچیس سو روپے ماہانہ کما پاتے ہیں۔ پچیس سو روپے ماہانہ یعنی چھٹیاں نکال کر بمشکل سو روپے روزانہ کمانے والا نہائے گا کیا نچوڑے گا کیا۔ پھر بھی اگر مایوسی نہ ہو تو میری طرف سے موج کریں جیسے اس تباہ حال ملک میں بھی موج مستی کے موسم تقریباً ہر سیاسی پارٹی کے لوگ دریافت کر ہی لیتے ہیں۔ پہلے لوٹنے والوں کی تعداد کیا کم تھی کہ اب اس میں تحریک انصاف کے ’’ترنگے‘‘ بھی شامل ہو گئے ہیں۔ میاں محمود الرشید صاحب اور ان کے بھائی کے کارناموں کے حوالے سے آنے والی خبروں پر جس طرح اب تک عمران خان صاحب کان لپیٹ کر کہیں غائب ہیں اس پر جی چاہتا ہے کہ ان کے سامنے جا کر ان کے بار بار دہرائے جانے والے بیان ضرور رکھے جائیں جس میں موصوف فرمایا کرتے تھے کہ اگر گیدڑوں کی فوج کو ایک شیر لیڈ کر رہا ہو تو وہ شیر بن جایا کرتے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں اب تک کی دکھائی جانے والی کارکردگی سے لے کر میاں محمود الرشید اور ان کے بھائی کے سامنے آنے والے کارناموں تک مبارک ہو عمران خان صاحب کو کہ ان کی فوج میں شامل گیدڑ واقعی ’’شیر ‘‘بنتے جا رہے ہیں اور ملک میں پہلے سے موجود دندناتے ہوئے’’شیروں‘‘ کی طرح اُدھیڑنے کا کام بھی بھرپور طریقے سے سرانجام دینا شروع ہو گئے ہیں۔ قوم کو جاگیرداروں، تاجروں، صنعت کاروں اور بیوروکریٹوں کے روپ میں سیاستدان ، وسیاسی راہنما مبارک ہوں۔ چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اِک راہرو کے ساتھ پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں