فیس بُک کے فنڈے

امریکی صدر یوں تو پاکستان میں ہمیشہ ہی اِن ہوتا ہے مگر جب ہمارے سربراہانِ مملکت امریکہ کے ’’شاندار‘‘ اور مہنگے دورے کر کے امریکہ سے آئوٹ ہو رہے ہوتے ہیں توان دنوں امریکی صدر پاکستان کی خبروں میں کچھ زیادہ ہی اِن ہوجاتا ہے۔ یوں بھی سماجی اورمعاشی طور پر پیچھے رہ جانے والی بیشتر قوموں کی طرح ہمارے ہاں بھی کثرت سے لوگ امریکہ بہادر کی طرف حسرت اور رشک سے دیکھتے ہیں۔لہٰذا آج امریکہ کے سب سے طاقتور بلکہ دنیا کے طاقتور ترین افراد میں سے ایک بارک اوباما سے کالم آغاز کرتے ہیں۔ بارک اوباما نے اپنی 2008ء کی الیکشن مہم اورگزشتہ برس ہونے والے صدارتی الیکشن میں سوشل میڈیا اور فیس بُک کو اپنا پیغام پہنچانے خصوصاً اپنے نوجوان ووٹرز کو متحرک کرنے اورپارٹی فنڈ کیلئے خطیر رقم جمع کرنے کیلئے نہایت مہارت اور کامیابی سے استعمال کیا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں کچھ حلقوں نے 2008ء کے انتخابات کے بعد بارک اوباما کو ’’First Social Media President‘‘ یعنی ’’پہلا سوشل میڈیا صدر‘‘ کا خطاب بھی دیا۔ بارک اوباما کے فیس بک پیج پر آج کی تاریخ تک تقریباً 3کروڑ 72لاکھ لائیکس(likes) ہیں اور ایک خیال یہ ہے کہ 2012ء میں اس پیچ پر جو تقریباً تین کروڑ ووٹرز تھے‘ انہوں نے اوباماکو صدارتی الیکشن جتوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اوباما ایک ایسے معاشرے کے نمائندہ اور صدر ہیں جو آزادی اظہار کے لیے پوری دنیا میں مشہور ہے اور جس کے بارے میں ہمارا خیال یہ بھی ہے کہ یہ قومیں اپنے بچوں کو اتنی آزادی دیتی ہیں کہ ان کا تقریباً ہر بچہ بلوغت کو پہنچتے ہی جنسی ’’سرگرمیاں‘‘ شروع کر دیتا ہے۔ وہاںکے والدین حتیٰ کہ امریکی صدر اپنے بچوں کے معاملے میں کیسے سوچتے ہیں اور ان کی پرورش میں کن چیزوں کا خیال رکھتے ہیں، شاید ہمارے معاشرے کے بہت سے افراد کے لیے دلچسپ ہوں۔ بارک اوباما نے اپنی دونوں بیٹیوں پندرہ سالہ مالیہ اوربارہ سالہ ساشا کو فیس بک استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی یعنی بچیوں کے لیے فیس بک کے استعمال پر ’’بین‘‘ لگایا ہوا ہے۔ اس حوالے سے پہلی بار یہ خبر 2011ء میں سامنے آئی تھی جب مالیہ تقریباً12 برس اور ساشا تقریباً 9 برس کی تھی۔اس معاملے میں اوباما کی سوچ آج بھی واضح ہے۔ جب2013ء میں اوبامادوبارہ صدر منتخب ہوئے تو خبر آئی کہ بچیاں اپنے باپ کے ساتھ فلم دیکھنے جاتی ہیں، اکٹھے کھانا کھاتے ہیں، لنچ کرتے ہیں، ڈنر کرتے ہیں، دوستوں سے ملتے اور فیملی فرینڈز سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ بچیاں والدکے ساتھ شاپنگ مالز میں جاتی اور ان کے ساتھ رقص بھی کرتی ہیں لیکن اوباما نے ابھی تک انہیں فیس بک استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی ۔ اوباما کا کہنا ہے کہ ’’18سال کی ہونے تک دونوں بیٹیوں میں سے کسی کو یہ اجازت نہیں ملے گی۔‘‘ بیٹیوں پر فیس بک کے استعمال کی پابندی کے حوالے سے اوباما کا کہنا ہے کہ’’ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ کیوں ایسے لوگوں کو ذاتی زندگیوں میں جھانکنے کی اجازت دی جائے جو ہمارے لیے اجنبی ہوتے ہیں اور جن کا ہماری زندگیوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔‘‘ یہ ایک ایسے والد، ایک ایسے شخص کا احوال ہے جس کی ذہانت اور طاقت کو ساری دنیا تسلیم کرتی ہے۔ اب آپ پاکستان آجائیں۔ میرے ایک دوست جو ایف آئی اے کے سائبر کرائم یونٹ کا انتہائی اہم حصہ ہیں، فیس بُک کے ذریعے ہونے والے فراڈز، گھپلوںاور جرائم کی جو تفصیلات بتاتے ہیں وہ رونگٹے کھڑے کر دیتی ہیں۔مثلاً کراچی ڈیفنس فیز فور کے رہائشی تاجر رضوان نامی شخص کا 13 سالہ بیٹا مصطفی فیس بک استعمال کرتا تھا اور بیشتر فیس بک یوزرز کی طرح کسی بھی شخص کی دسترس میں تھا۔کوئی بھی اس سے بات کر سکتا اور پیغام بھیج سکتا تھا۔ فیس بک پر ہی مصطفی کی دوستی ارسلان نامی لڑکے سے ہو گئی جو خود کو مصطفی ہی کا ہم عمر بتاتا تھا اور تھا بھی۔ فیس بک کا تودعویٰ ہے کہ یہ آپ کو لوگوں سے connectکرتی ہے یعنی لوگوں سے جوڑتی اور رابطہ کرنے میں سہولت دیتی ہے۔ کس قسم کے لوگوں سے جوڑتی ہے اس کی کوئی گارنٹی نہیں دی جا سکتی۔ اہل خانہ نے کبھی خبر نہ لی، نظر ہی نہ رکھی کہ سوشل میڈیا کے استعمال سے ’’ماڈرن‘‘ بنتااورجدید دنیا کے ساتھ چلتا ہوا یہ بچہ فیس بک کے ذریعے کن لوگوں سے دوستی کر بیٹھا ہے ،کس قسم کے خیالات اس تک پہنچ رہے ہیں، کیا باتیں کرتا ہے، کیا کہتا ہے، کیا سنتا ہے، کس سے کہتا ہے، کس سے سنتا ہے، کیا دیکھتا ہے ،کیا شیئر کرتا ہے؟ یقیناً اہل خانہ کو اس کی کچھ خبر نہ تھی۔ مختصر یہ کہ فیس بک دوستی کا انجام مصطفی کے اغوا پر ہوا۔جب مصطفی کے والدین کو پانچ کروڑروپے تاوان کیلئے فون آیا تو والدین کو اندازہ ہوا کہ بچوں کی فیس بک دوستی پہ نظر نہ رکھنے کا انجام یہ بھی ہو سکتا ہے۔ مصطفی کا کیس تو سامنے آگیا لیکن فیس بک کے ذریعے جس قسم کے گھنائونے جرائم ہو رہے ہیں ان کی تفصیل کم ہی میڈیا میں آپاتی ہے۔ میرے ایف آئی اے والے دوست اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ فیس بک کے ذریعے ہونے والے فراڈ جس نوعیت کے ہوتے ہیں 90 فیصد افراد اس کی پردہ پوشی میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں۔دوئم،لوگ یہ تک نہیں جانتے کہ اس قسم کے کرائم کی کہاں شکایت درج کرائی جائے ؟ سائبر کرائم سے کیسے لاکھوں کروڑوں لوگ متاثر ہورہے ہیں،کچھ اندازہ اس بات سے لگایاجا سکتا ہے کہ میرے اپنے نام سے میری تصویر چسپاں کر کے فیس بک کے20 سے 25اکائونٹس بنے ہوئے ہیں۔ان سب میں مجموعی طور پر تقریباً ساڑھے چار سے پانچ لاکھ فینز((fans ہیں۔ میرے نام کے صرف ایک جعلی پیج پر تقریباً ڈھائی لاکھ فینز ہیں اور ان میں سے بیشتر کا تاثر یہی ہے کہ یہ سارے اکائونٹس میرے ہیں جبکہ میں نے انہی ’’فیک‘‘ اکائونٹس کی وجہ سے مجبور ہو کر چند ماہ پہلے بے دلی سے فیس بک اکائونٹ بنایا تھا۔ یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے جو میں نے آپ کے سامنے رکھی۔ خیر بارک اوباماکی مثال ہو یا مصطفی کا حادثہ یا میرے اپنے نام کے بیسیوں جعلی اکائونٹس کا معاملہ،مقصد صرف یہ ہے کہ ہمارے بچے، ہماری نسلِ نو، ہماری قیمتی ترین متاع ہے۔ یوں بھی بدامنی، معاشی وسماجی پستی نے ہمارے لیے ایک اولاد ہی کی خوشی باقی رہنے دی ہے۔ کون چاہے گا کہ ان کی اولاد رائج اخلاقی اقدار سے ہٹ کر پستی کا شکار ہو، بے راہ روی کی طرف جائے یا ہر اجنبی تک اس کی رسائی ہو؟ کیونکہ نتیجتاً مصطفی جیسے حادثات بھی ہو سکتے ہیں اور بچیوں کا معاملہ تو بہت نازک صورت اختیار کرلیتا ہے۔ کوئی احمق اور جاہل ہی ہو گا جو بچوں یا بچیوں کے کمپیوٹر استعمال کرنے قدغن لگا ئے کیونکہ یہ بنیادی طور پر علم اور انفارمیشن کا منبع بن چکا ہے۔ لیکن اگر بچوں اور بچیوں کے اخلاق، عصمتوں اور زندگیوں کو خطرہ لاحق ہو، مصطفی جیسے حادثات پیش آرہے ہوں تو کیا پھر بھی ان پہ نظر رکھے بغیر انہیں کمپیوٹر پر ہر قسم کے سوشل میڈیا کے استعمال کی آزادی دی جا سکتی؟ یہ فیصلہ کرنا آپ کا کام ہے، آپ اپنے بچے کو کتنی آزادی دینا چاہتے ہیں ۔ میرے نزدیک فیس بک کی دنیا ایک ایسے جنگل کی طرح ہے جس میں دیکھنے کو یقیناً بہت کچھ ہے مگر اس جنگل میں خونخوار،آوارہ ،بھوکے بھیڑیے خون آلود دانت نکالے شکار کو بھنبھوڑنے کیلئے بے چین رہتے اور معصوموں کی بُو سونگھتے پھر رہے ہوتے ہیں۔ لہٰذا اول تو اس جنگل میں کم ازکم بچوں کو جانے ہی نہ دیا جائے اور اگر کوئی سمجھتا ہے کہ بچے کی گروتھ اور دانائی اس کے بغیر ممکن نہیں تو کم ازکم تمام تر حفاظتی اقدامات کر کے ہی انہیں’’ جنگل‘‘ کی سیرکی اجازت دی جائے‘ تا کہ وہ جنگل کا حُسن بھی دیکھ لے، جو سیکھنا ہے سیکھ بھی لے اور خونخوار بھوکے بھیڑیوں سے بھی اُس کو بچایا جا سکے۔ ورنہ سچ پوچھیں تو بچوں کے لیے گریز ہی بہتر ہے۔ دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ کے صدر بارک اوباما نے امریکہ میں رہتے ہوئے بھی اپنی بچیوں کو فیس بک کے استعمال کی اجازت نہیں دی۔ کیا خیال ہے، واحد سپر پاور امریکہ کا صدر بارک اوباما بے وقوف ہے‘ جس نے اپنی بیٹیوں کو فیس بُک کے فنڈوں سے دور رکھا ہوا ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں