فیض بخش لائو تو قتل نامہ میرا

طالبان سے فوری مذاکرات تو حکیم اللہ محسود والے واقعے کے بعد ڈرون کی نذر ہو گئے، اب دوبارہ مذاکرات کے لیے ماحول کب سازگار ہو گا؟ ہوگا بھی یا نہیں ہو گا؟ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ مگر یوں لگتا ہے کہ پاکستانیوں کو خون کے مزید کچھ دریا ابھی پار کرنا باقی ہیں۔ ؎ اِک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا بیماری پورے بدن میں کینسر کی طرح اپنی شاخیں پھیلا چکی ہے۔ جنہیں حبیب اور طبیب سمجھ کے علاج کرانے میں ہم مگن ہیں وہ نہ ہمارے حبیب ہیں نہ طبیب۔ ایسے میں جسدِ خاکی کے نصیب میں ایسی ہی تکلیفیں، اذیتیں، درد اور کراہیں ہوا کرتی ہیں جیسی پاکستان اور پاکستانی قوم کا مقدر بن چکی ہیں۔ کسی کو کسی کے طرزِفکر سے لاکھوں کروڑوں اعتراضات سہی مگر جب ایک طرف اپنی آئیڈیالوجی سے کمٹمنٹ کا یہ عالم ہو کہ اپنے مقصد کے لیے بلاخوف و خطر خودکُش جیکٹس پہن کر لوگ مرنے مارنے کو تیار ہوں اور دوسری طرف مقابلے میں وہ لوگ ہوں جو ہوسِ مال و زر اور حُب جاہ میں ایسے لتھڑے ہوں کہ اربوں کھربوں لوٹ کر بھی ان کے معدوں کی بھوک نہ مٹتی ہو تو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگنی چاہیے کہ ایسے مقابلے میں کون سا فریق بھاری ہوا کرتا ہے۔ اپنے مقصد کے لیے جان دینے والوں کا مقابلہ جب جان ہتھیلی پر رکھ کر ڈٹے رہنے والوں کے بجائے بُلٹ پروف گاڑیوں میں بھی خوفزدہ مخلوق سے ہو تو امن اور فتح کی امید رکھنا کسی دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔ جس قسم کے خونی دور سیِ پاکستان نبرد آزما ہے ایسے میں تو اگر حقیقی لیڈر ہوتے تو خدا کی قسم انہیں عوامی مسائل حل کرنے کے علاوہ کھانے پینے اور سر کھجانے تک کی فرصت نہ ہوتی۔ مگر سیاستدانوں کے روپ میں جاگیرداروں، بیوروکریٹوں، تاجروں اور اسی نو ع کے دیگر ’’ووں‘‘ کی ترجیحات کچھ اور ہی ہوا کرتی ہیں، لہٰذا جدھر دیکھیے اپنے بزنس کو بڑھاوا دیتی ایک مخلوق نظر آتی ہے جسے ہم حکمرانوں کا نام دیتے ہیں۔ کیا ایسے حکمران ایسی کسی بھی قوت کا مقابلہ کر سکتے ہیں جن کے پیشِ نظر اپنے مقصد کے لیے مرنا ہی اصلِ حیات ہو۔ اور یہ جو امریکہ ہر اہم موڑ پر ڈرون کر دیا کرتا ہے، کبھی غور کیجئے گا کہ حکمران کیوں امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے کھل کر احتجاج نہیں کرتے؟ جن ملکوں کے بینکوں میں اپنے ملکوں سے لوٹی گئی دولت چُھپائی گئی ہو، جن ملکوں میں لوٹی ہوئی دولت سے محل اور پلازے کھڑے کیے گئے ہوں۔۔۔ ایسے پلازے جو ان امیر ملکوں کے رئوسا کی بھی آنکھیں چندھیا دیں، سروں کی ٹوپیاں گرا دیں، دوسرے لفظوں میں اپنی عوام کو بھنبھوڑ کر جو مال اکٹھا کیا گیا ہو، وہ سب انہی ملکوں میں جمع ہو جو ڈرون مارتے ہیں تو کیسے کوئی ان ممالک کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتا ہے! دنیا کا دستور تو یہ ہے کہ جس سے قرض لے لیا جائے اس سے بھی آنکھیں نیچی رکھنی پڑتی ہیں، کُجا کہ جس کے گھر میں چوری کا مال چھپایا ہو، اس سے لڑائی جھگڑے، احتجاج یا اختلاف کا حوصلہ کیا جائے۔ کچھ تو ’’مصلحت‘‘ ہے کہ ڈرون حملوں میں ’’ہزاروں‘‘ کی تعداد میں مارے جانے والے لوگوں کی تعداد اسمبلی جیسے انتہائی اہم فورم پر صرف ’’درجنوں‘‘ میں بتائی جاتی ہے۔ پاکستانی قوم اس ’’مصلحت‘‘ کی وجہ تلاش کر لے،جلتے بلتے پاکستان میں امن نہ ہونے کی وجہ خود بخود سمجھ آ جائے گی۔ آنے والے دن پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے بہت ہی کٹھن لگ رہے ہیں۔ پچاس ہزار سے زائد پاکستانیوںکی جانیں پہلے ہی وطن عزیز پر نچھاور ہو چکی ہیں مگر جیسا کہ اوپر لکھا، خدشہ یہی ہے کہ ابھی خون کے اور کئی دریا عبور کرنا باقی ہیں۔ اس ابتلا کے دور میں پاکستانیوںکو ضرور سوچنا چاہیے کہ اتنی اذیتوں کے اسباب کیا ہیں؟ لیکن ایک بات طے ہے کہ جب تک لوگ کمپائونڈروں کو ماہر ڈاکٹر سمجھ کر علاج کراتے رہیں گے، مرض کبھی دور نہ ہو گا بلکہ جو ں جوں دوا کی جائے گی مرض بڑھتا جائے گا۔ کمپائونڈروں کو ڈاکٹر سمجھ کر علاج کرانے والوں کو ایسی ہی اذیت، تکلیف، چیخوں، کراہوں اور آہوں سے گزرنا پڑتا ہے جس سے پاکستانی قوم گزر رہی ہے۔ آخر میں علمائے کرام سے دست بستہ گزارش ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور جب تک یہ آگ جو پاکستانیوں کو جلا رہی ہے ٹھنڈی نہ پڑ جائے چین سے نہ بیٹھیں۔ حُب رسولؐ کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس مملکت میں مسلمانوں کے باہمی جھگڑوں کو ختم کرنے کے لیے جو شخص جتنا کردار ادا کر سکتا ہے وہ ضرور کرے تا کہ روزِ قیامت آقائے دو جہاںﷺ کے حضور سرخرو ہو سکے۔ جاتے جاتے فیض کی نظم کا ٹکڑا یاد آ گیا: ہے مے کدے میں آگ برابر لگی ہوئی آباد کر کے شہرِ خموشاں ہر ایک سُو کس کھوج میں ہے تیغِ ستمگر لگی ہوئی آخر کو آج اپنے لہو پر ہوئی تمام بازی میانِ قاتل و خنجر لگی ہُوئی ’’لائو تو قتل نامہ مِرا، میں بھی دیکھ لوں کس کس کی مُہر ہے سرِ محضر لگی ہوئی‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں