’’ڈرون‘‘ کے دور میں ’’سکون‘‘ کی رُخصت

ریشم جیسے سُروں کی مالک ریشماں بھی چلی گئیں۔ کسی بھی نوع کا فنکار ہو اپنے فن کو اپنی تخلیق کو زمانے بھر سے مختلف بنا کر پیش کرنے کے لیے کیا کیا جتن نہیں کرتا۔ شکیب نے کہا تھا نا۔ ؎ شکیب اپنے تعارف کے لیے یہ بات کافی ہے ہم اس سے ہٹ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے غالب ہو کہ خواجہ خورشید انور، پکاسو ہو کہ صادقین، امانت علی خان ہوں یا سلامت علی خان، بیگم اختر ہوں یا فریدہ خانم، مروجہ چلن سے ہٹ کر نظر آنے کے لیے ،اپنی ایک علیحدہ شناخت کے لیے فنکار بے حد محتاط اور حساس ہوا کرتا ہے۔ لیکن کسی کسی کوایسا عطیۂ خداوندی نصیب ہوا کرتا ہے جیسا ریشماں کو ایک انتہائی منفرد آواز اور سُریلے گلے کی صورت میں عطا ہوا۔ ریشماں کو باری تعالیٰ نے ایسی منفرد اور مضبوط آواز عطا کی تھی جو اربوں انسانوں کی آوازوں میں سے فوراً پہچانی جا سکتی تھی۔ نہ صرف منفرد بلکہ انتہائی پرسوز، سریلی، اپنے اندر ایک خاص طرح کا تقدس ، ٹھہرائو، وسعت اور اداسی لیے ہوئے ۔ ایسی اداسی جو کونج کی کرلاہٹ میں ہواکرتی ہے۔ ایسی مہین بے چینی جو وہی کیفیت پیدا کر دے جو ہلکے ہلکے نشے کے عالم میں ہوا کے لگنے کی صورت میں محسو س ہوتی ہے۔ ریشماں کی شخصیت اور انداز دونوں میں وہی سادگی، اوریجنیلٹی، سچائی اور وسعت پائی جاتی ہے جو صحرا اور صحرائی خلقت کا خاصا رہا ہے ۔ یہ وہی آواز ہے جو فطرت کے اصولوں کی نگہبانی کرتی نظر آتی ہے۔ ریشماں کی آواز میں وہ اخلاص نظر آتا تھاجس سے آج کے بے چین اور سنسنی خیز دور میں لتھڑا انسان دور بہت دور ہو چکا ہے۔ غم، تھکن اورافسردگی کے لمحوں میں ریشماں کی آواز کسی ہمدمِ دیرینہ کی طرح کُوسا کُوسا ٹِکور کرتی محسوس ہوتی تھی۔ ریشماں کی آواز روح کے لیے ایسے دھیمے دھیمے مساج کا کام کرتی تھی جو روح سے تمام کذب وریا ، گدلاہٹ اورتھکن کو نچوڑ کر رکھ دے۔ اس پُرآشوب دور میں ریشماں کی آواز امن کی علامت تھی۔ ریشماں کی آواز سننے کے بعد یوں لگتا تھا جیسے برسوں چھ بائی چھ کی کسی کال کوٹھڑی میں بند قیدی کو یک دم صبح سویرے صحن میں بیٹھنا نصیب ہو گیا ہو۔ نہ صرف ریشماں کی آواز بلکہ ریشماں کی شخصیت نے بھی ،اگر غور کیا جائے تو، اس معاشرے کو بہت کچھ دیا ہے۔ عموماً شوبز کے لوگوں کا خیال آتے ہی پہلا تصور چکا چوند، روشنیوں اور سنسنی خیزی کا ذہن میں ابھرتاہے اور اب تو پوری دنیا میں شوبز سے جُڑے بیشتر لوگ سیمابی صفات کی علامت ہوا کرتے ہیں۔ مگر ریشماں اسی شوبز کا بھرپور حصہ ہوتے ہوئے بھی اس سے بے حد مختلف تھیں۔ انتہائی سادہ ، سچی ، کھری اور نرم خو۔ شخصیت میں تیزی وطراری ، جھوٹ ، مکر ، دکھاوا اورمنافقت نام کو نہ تھی اگر کچھ تھا تو ایک نرم ملائم سچا ، ٹھہرا ہوا،کھرا، اُجلا صبح صادق جیسا کردار اور شخصیت۔ موسیقی کی دنیا میں نئے آنے والوں کو ہی نہیں بلکہ ایک عالم کوبھی صرف ریشماں کی آواز سے ہی لطف نہیں اٹھانا چاہیے بلکہ ریشماں سے زندگی کرنے کا ہنر بھی سیکھنا چاہیے کہ شہرت کے بامِ عروج پہ پہنچنے کے بعد بھی کیسے اپنے اندر کے اخلاص، سچائی، کھرے پن اور سادگی کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ شومئی قسمت دیکھیے کہ وہ گلے کے کینسر کے مرض میں مبتلا رہیں۔گویا قدرت نے جس گلے کے توسط سے انہیں عزت، شہرت اور مقام بخشا وہی ان کی وفات کا باعث بھی بنا۔ سچ ہے، اوپر والے کی اوپر والا جانے۔ ہم تو یہ جانتے ہیں کہ اس بے چین زمانے میں ریشماں کی آواز چین کی علامت تھی۔ ڈرون کے اس دور میں ریشماں کی آوازسکون ہی سکون تھی۔ افسوس صد افسوس صبح شام مہنگائی، اقربا پروری ، وراثتی سیاست، بدامنی اور کرپشن کے ڈرون سے لے کر امریکی ڈرون تک بھانت بھانت کے ڈرون پاکستانیوں کو دھڑا دھڑ مار رہے ہیں۔ مگر چین اورسکون کی علامت ریشماں کی آواز معاشرے سے اُٹھ چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ ریشماں کو اپنی جوارِ رحمت میں جگہ دے…… آمین

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں