اُمرا نشّۂ دولت میں ہیں غافل…

ایک کالم میں بھلا کیسے اقبال کی عظمت کا احاطہ کیا جا سکتاہے مگر ایک بات طے ہے کہ اصلاحِ احوال کے لیے اگر قوم اور سیاستدان اپنے دانشوروں، اُدباء ، شعراء واساتذہ کی طرف دیکھتے، انہیں اہمیت دیتے تو مملکت اس دورِ ابتلاء میں مبتلا نہ ہوتی جو آکٹوپس کی طرح قوم کو جکڑے ہوئے ہے۔ اقبالؔ کی نظم جوابِ شکوہ سے ہی اگر سیکھنے کی کوشش کی ہوتی تو قوم کی تقدیر بدل گئی ہوتی۔ ایک ایک مصرعے میں ہدایت کا جہان روشن ہے مگر افسوس کہ ہم اس روشنی سے فیض نہیں اٹھا سکے۔ اندھیروں کو اُجالوں میں تبدیل نہیں کر سکے۔جوابِ شکوہ کے مصرعوں پہ نظر ڈالتے جائیے اور اپنے گریبان میں جھانکتے جائیے۔ اپنی بربادی کی وجوہات خود بخود سمجھ آتی چلی جائیں گی کہ کسی بگاڑ کو درست کرنے کا پہلا قدم غلطیوں اور کوتاہیوں کا ادراک اور اعتراف ہی ہوا کرتا ہے ورنہ فرد ہو کہ قوم تمام عمر State of Denial میں رہتے ہوئے یہ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ وقت ان کے ساتھ کیا چال چل گیا ہے اور خود ان کی اپنی جہالت و عادات ان کے ساتھ کیا ہاتھ کر گئیں۔ اقبالؔ لکھتے ہیں۔ ع عالمِ کیف ہے‘ دانائے رموزِ کم ہے روشنیاں دکھاتی اور رستہ سجھاتی اسی نظم جوابِ شکوہ میں آگے جاکر لکھتے ہیں۔ ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں راہ دکھلائیں کسے، رہروِ منزل ہی نہیں تربیت عام تو ہے ، جوہرِ قابل ہی نہیں جس سے تعمیر ہو آدم کی، یہ وہ گِل ہی نہیں کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں ذرا نظر دوڑائیں۔ خود پر اور دوسروں پر اور قانونِ قدرت پر‘ تو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ جو قابل ہے انہیں ’’کے‘‘ جیسی عظمتیں عطاء ہوئیں اور جو ڈھونڈ رہے ہیں‘ کھوج میں ہیں۔ تلاش میں ہیں وہ مریخ سمیت نئی دنیائوں کے انعامات سے نوازے جا رہے ہیں۔ اور ایک ہم ہیں کہ دھماکے اور بارود ہماری نسلوں اور گلیوں کامقدرہے۔ بقول شاعر ؎ جس کی تخلیق میں شامل ہے تننا ہُو یا ہُو اس کی گلیوں میں بسی رہتی ہے بارود کی بُو واپس جوابِ شکوہ پہ آتے ہیں۔اقبالؔ لکھتے ہیں: جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن تم ہو بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خرمن تم ہو بیچ کھاتے ہیںجو اسلاف کے مدفن تم ہو بحیثیت قوم ہمارا ٹیلنٹ اپنی جگہ جو شاید قدرت ہر قوم کوہی نوازاکرتی ہے مگر کیا ہم نے کسی شعبے میں مہارت و یکتائی حاصل کی ؟کوئی ایسا ہنر، کوئی ایسا ملکہ جو دنیا میں کسی قوم کوحاصل نہ ہومگر ہمارا فخر ہو…؟ جانے دیں… جو ہمارا فخر ہے‘ جس فن میں ہم نے یکتائی حاصل کی وہ لکھ دوں تو لٹھ لے کے پیچھے پڑ جائیں گے یار لوگ۔آگے اقبالؔ جو کچھ لکھتے ہیں وہ عین آج کے دن کا نوحہ نظر آتا ہے…علامہ نے لکھا: منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک ایک ہی سب کا نبیؐ دین بھی، ایمان بھی ایک حرمِ پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک؟ فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟ پچھلے دنوں ساحرؔ اور جون ایلیاؔکی بھی برسی گزری۔ ساحرؔ ہوں‘ جون ایلیا یا اقبال،ؔ جو اقوام بھی اپنے ادباء، شعراء ، اساتذہ اور دانشوروں کی قدر کیا کرتی ہیں‘ انہیں یاد رکھا کرتی ہیں‘ ان کے افکار سے راہنمائی لیا کرتی ہیں‘ وقت بھی انہی کی قدر کیاکرتا ہے ۔ تبھی تو قائد اعظم نے ایک موقع پہ کہا تھا کہ میں سلطنت کے بدلے اقبال کو ترجیح دیتا۔ساحر کی تاج محل ہو یا جون ایلیا کی شہرِ آشوب یہ سب ہمیں دعوتِ فکر دیتی ہوئی‘ امن و خوشحالی کی طرف بلاتی ہوئی‘ روشنی دکھاتی ہوئی خوشبوئوں جیسی شاعری ہے ۔ آخر میں جاتے جاتے پھر علامہ کا ایک شعر جس کے آئینے میں ہم اگر اپنا چہرہ پہچان سکیں تو کیا خبر کبھی اسے سنوارنے کا خیال آہی جائے ۔ علامہ نے فرمایا تھا ؎ یوں تو سید بھی ہو‘ مرزا بھی ہو‘ افغان بھی ہو تم سبھی کچھ ہو بتائو تو مسلمان بھی ہو؟ اور جوابِ شکوہ میں ہی ایک جگہ لکھا تھا ؎ اُمَرا نشّۂ دولت میں ہیں غافل ہم سے زندہ ہے مِلتِ بیضا غُربا کے دم سے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں