صاحبو! اعتدال اعتدال اعتدال

اُف …اُف… اُف… خلفشار اور انتشار ایسا کہ سر چکرانے لگے اُبکائی آنے لگے۔ شایدہی ہم جیسی خود کو یوں تباہ وبرباد کرنے والی کوئی دوسری قوم دنیا میں پائی جاتی ہو؟ خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں کج بحثی اور بال کی کھال اتارنے جیسے محاوروں کی کوئی مجسم تصویر اگر کسی کو ملاحظہ کرنی ہو تو پاکستان کے مختلف سیاسی گروہوں اور اداروں کے درمیان ہونے والے مباحث پہ ذرا ایک نظر ڈال لے۔ اور اگر آپ تدبر، تفکر اور حکمت جیسے الفاظ کا مفہوم تلاش کرنے نکلیں تو تجربہ کار سے تجربہ کار بظاہر عالم فاضل نظر آنے والا شخص بھی پاکستان میں ان الفاظ پر عمل سے گریز ہی کرتا نظر آئے گا۔ جیسے عدم برداشت ،ذاتی انائوں کی تسکین، خود سری ، خودپسندی اس قوم کے جینز میں سرایت کر گئی ہو۔ گزشتہ روز ہمارے دوست عامر غوری کے پروگرام میں سوال تو کچھ اور تھا مگر ہمارے محترم دوست سلمان غنی صاحب نے جواب کا آغاز معاشرے کے ہر طبقے میں در آنے والی انتہا پسندی سے کیا اور بالکل بجا کیا تو باقی گفتگو اسی طرف مڑتی چلی گئی کہ یہ جو ہر طرف سے انتہائی جذباتی قسم کے بیانات کی بارش میں قوم جل رہی ہے اس کے بخارات اسی انتہا پسندی کی حدت سے جنم لیا کرتے ہیں۔ بچہ ہو کہ بوڑھا، مرد ہو کہ عورت کمزور ہو کہ توانا، غریب ہو کہ رئیس… نام نہاد مدبر ہو کہ تاجر، صحافی ہو کہ شاعر، عاِلم ہو کہ سائل ہر شخص جذباتیت کی انتہا کو چھو رہا ہے جیسے اس قوم کے ہر شعبے کے ہر شخص کا پارہ باقی اہل جہاں سے دو درجے اوپر ہو۔ نارمل حالات میں بھی تھرما میٹر لگائیں تو درجہ حرارت 100 سے اوپر ہی کے نشان پر جا ٹھہرتا ہے ۔ کسی سے اختلاف ہے تو اسے صفحۂ ہستی سے مٹا دینے سے کم پہ کوئی قانع نہیں اور اگر کسی کی حمایت کا اقرار ہے تو اس کے اظہار کیلئے جان دینے اور جان لینے سے کم پہ کوئی تیار نہیں ۔ حق ،سچ ، انصاف و صداقت کے بجائے اپنے اپنے گروہ کے حق میں ڈٹ کے کھڑے ہو جانے والے لوگ گھٹنوں کے بل گر جایا کرتے ہیں اور کبھی قوم نہیں بن پاتے۔ خاموشی ، درگزر، برداشت کا پنچھی اس مملکت سے ایسے پرواز کر جائے گا !کبھی کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا۔ وہ جنہیں صبر، برداشت، حکمت کی علامت ہونا چاہیے تھا گفتگو فرماتے ہیں تو غیظ و غضب غالب آجاتا ہے ۔ایسے میں عقل کہاں کام کرتی ہے؟ اونچے سُروں کی بے دلیل اوردوسرے کو ذلیل کرتی ہوئی آوازیں ، کھوکھلے ، بے پر کے جذبات اور آگ لگانے والے الفاظ ہی رہ جاتے ہیں۔ مریض وینٹی لیٹر پہ منتقل ہونے کو ہے اور لواحقین اس پر توجہ دینے اور ماہرِ طبیب کی تلاش اوردوا دارو کے بجائے اس قسم کی بحثوں میں الجھے نظر آتے ہیں کہ مریض کے بال کٹ جانے سے وزن کتنا گھٹ جائے گا۔ آفرین ہے ایسے لواحقین ،ان کی عقلوں اور ان کی مریض سے محبت کے دعوئوں پر،غافل جانتے ہی نہیں کہ یہ مریض ایسا ہے کہ جس کے جاتے ہی لواحقین بے یارومددگار ہو جائیں گے۔ دم مریض تو ڑے گا تودربدر لواحقین ہوں گے لیکن جہالت، جھوٹی انائیں ،سستے جذبات اور ذاتی مفادات اتنے حاوی ہیں کہ مریض کی زندگی سے جڑی یہ حقیقت کوئی نہیں پہچان پا رہا کہ اگر ع تم گئے تو سب گیا جاتے جاتے حکمت کے سرخیل حکیم لقمان کے چند اقوال کہ چاہے فرد ہو، ادارہ یا قوم سب کو ان سے سیکھنے کی ضرورت ہے ،مزید انتشار اور بربادی سے بچنا ہے کہ اس تنِ داغ داغ پہ مزید زخم کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔ زخم ہیں کہ لگتے چلے جاتے ہیں اور نہ مرہم دستیاب ہے نہ ڈھنگ سے مرہم لگانے والے … تن ہمہ داغ داغ شُد پنبہ کُجا کُجا نہم حکیم لقمان نے فرمایا… ٭کھانے سے بھوکا اور حکمت سے سیر رہ۔ ٭خاموشی کو اپنا شعار بنا تا کہ زبان شرسے محفوظ رہے۔ ٭جس طرح آگ کا ایک ذرّہ عالم کو تباہ کر دیتا ہے اسی طرح ایک بدکلمہ انسان کی حالت تباہ کر دیتا ہے۔ آخر میں اتنا ہی عرض ہے کہ اسلامی فلسفہ بہت واضح پیغام دیتا ہے کہ سونا ہو یا جاگنا، کھانا ، پینا ہو یا بولنا اوربحث کرنا، خرچ کرنا ہو کہ ہاتھ روکنا، غرض یہ کہ زندگی کا کوئی بھی رویہ ہو صاحبو انتہا پسندی نہیں، برداشت۔ نہ کمی نہ زیادتی بلکہ … اعتدال… اعتدال…اعتدال…!!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں