نئے آرمی چیف .. قربانیاں اور سیاستدان

وہ برطانوی شاہی خاندان کا چشم و چراغ ہے۔ خاندان کا فیصلہ تھا اور اس کی اپنی خوشی بھی، یکم فروری 2012ء کو وہ برطانوی فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے فاک لینڈ، آئی لینڈ کو پرواز کر گیا۔ اس جگہ کا برطانیہ اور ارجنٹائن کے درمیان آج کل تنازع چل رہا ہے۔ برطانوی شہزادہ وہاں چھ ہفتے تک تعینات رہا، فوجی وردی میں ملبوس یہ برطانوی شہزادہ اس فوجی دستے کا باقاعدہ حصہ تھا جو تعیناتی کے دوران 24 گھنٹے کال پر ہوتے ہیں یعنی ہمہ وقت جنگ کے لیے تیار، مزید برآں یہ برطانوی شہزادہ اپنا ہیلی کاپٹر خود اُڑا کر محاذ جنگ پر پہنچا۔ برطانوی عوام اس شہزادے کو پرنس ولیم کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ وہی پرنس ولیم ہے جس نے اپنی فوج سے یکجہتی کے اظہار کے لیے اپنی شادی کے موقع پر شادی کے لباس کے طور پر فوج کی ایک بٹالین آئرش گارڈ کے یونیفارم کا انتخاب کیا‘ جو اس وقت افغانستان میں تعینات تھی۔
یہ اپنی فوج کے ساتھ‘ جو وطن سے ہزاروں میل دور برطانیہ کے مفاد کے لیے جنگ لڑ رہی تھی‘ ایک سیاستدان، ایک شہزادے کا اظہار یکجہتی تھا۔ زبانی کلامی دکھاوے کا نہیں عملی اظہارِ یکجہتی۔
بات پرنس ولیم پر ختم نہیں ہوتی‘ برطانوی شاہی خاندان کا دوسرا شہزادہ، شہزادہ ہیری جو ولیم کا چھوٹا بھائی ہے‘ وہ بھی سخت ترین ٹریننگ کے بعد اب اپاچی اٹیک ہیلی کاپٹر اڑانے میں ماہر ہے۔ وہ 2007ء میں دس ماہ تک افغانستان میں اپنے 9500 فوجیوں کے شانہ بشانہ وار زون میں تعینات رہ چکا ہے اور باقاعدہ اگلے مورچوں میں خدمات سرانجام دیتا رہا ہے۔ یہ خبر بریک ہونے پر کہ شہزادہ چارلس اور لیڈی ڈیانا کا چھوٹا بیٹا افغانستان میں برطانوی فوج کے شانہ بشانہ اگلے مورچوں پر لڑ رہا ہے‘ پرنس ہیری کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہو گئے تھے جس کی وجہ سے اسے فوراً برطانیہ واپس بھیج دیا گیا تھا مگر محب وطن پرنس ہیری بے چین رہا اور وطن واپسی کے وقت 27 سالہ ہیری نے کہا کہ وہ جلد سے جلد دوبارہ افغانستان جانا چاہتا ہے تا کہ جو مشن ادھورا رہ گیا ہے اسے پورا کر سکے۔ تقریباً چار سال کے بعد پرنس ہیری اپنے عوام‘ اپنی فوج اور اپنے فوجیوں کو یہ بتانے کیلئے کہ وہ شہزادہ صرف حکومت کرنے، حکم چلانے‘ انڈسٹریاں بنانے، برطانیہ میں سیاست کے بل پر بیسیویں ملکوں میں کاروبار بڑھانے کی خاطر مال بٹورنے کے لیے نہیں ہے بلکہ اس لیے شہزادہ ہے کہ وہ برطانیہ کے مفاد کی خاطر جان بھی دے سکتا ہے اور اپنی جان کو اپنے فوجیوں کے ساتھ خطرے میں بھی ڈال سکتا ہے۔ ہیری دوبارہ افغانستان میں اپنی فوجوں کے شانہ بشانہ اپنی قوم کے دشمنوں سے لڑنے کے لیے تیار تھا۔ اب جولائی 2013ء میں خبریں آئی تھیں کہ ہیری تیسری مرتبہ افغانستان جا کر اپنے وطن کی خاطر جان دینے والوں کے ہمراہ لڑنے کا ارادہ باندھ رہا ہے اور اس مرتبہ انتہائی خطرناک صوبے ہلمند میں۔
یہ تو تھا برطانوی چشم و چراغ ہیری اور ولیم کا احوال‘ امریکہ اور امریکی کس طرح اپنی فوج کو سپورٹ کرتے ہیں‘ اس بارے میں محمد علی کلے کی زندگی کی تاریخ تو ساری دنیا جانتی ہی ہے کہ جب انہوں نے مذہبی وجوہ کی بنا پر ویت نام جنگ کا حصہ بننے سے اور ویت نام جانے سے انکار کیا تو امریکیوں نے ان کے ساتھ کیا کیا تھا۔
1967ء میں جب عظیم باکسر محمد علی کلے نے ویت نام جانے سے انکار کیا تو امریکہ کی ہر ریاست نے ان کا باکسنگ لائسنس اس جرم کی پاداش میں کینسل کر دیا۔ پورے امریکہ میں انہیں کہیں باکسنگ کی اجازت نہ تھی۔ ان کا پاسپورٹ ضبط کر لیا گیا‘ وہ ملک سے باہر نہیں جا سکتے تھے‘ امریکی عدالتوں نے محمد علی کو پانچ سال قید کی سزا سنا دی تھی۔ محمد علی کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے اور کئی محرکات بھی تھے اور یہ داستان کافی طویل اور پیچیدہ ہے، لیکن دنیا میں ملک، عوام اور سیاستدان کس طرح اپنی فوجوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں‘ یہ محمد علی کلے کو ''رگیدے جانے‘‘ سے صاف ظاہر ہے۔
برطانیہ اور امریکہ کے ہیری، ولیم اور محمد علی کی داستان کے بعد آپ پاکستان آ جائیے۔ وہ تمام سیاستدان جو پاکستان کے طفیل جائز اور ناجائز طور پر آج کھربوں کے مالک ہو چکے ہیں‘ سعودیہ سے لے کر سری لنکا تک ایجویئر روڈ سے لے کر دبئی، فرانس، سوئٹزرلینڈ تک جن کی ملوں اور اکائونٹس کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے‘ ان میں سے بیشتر کی اولادیں بیرون ملک بستی اور کاروبار کرتی ہیں۔ حکومت کے اندر ہوں یا باہر‘ تمام سیاستدانوں میں سے ایک فیصد کی بھی اولاد آپ کو فوج میں شامل ہو کر قربانیاں دیتی دکھائی نہیں دے گی‘ جبکہ ملیں اکائونٹس اور جائیدادیں بنانے میں یہ معاملہ بالکل الٹ ہے۔ یہ شرح مال بنانے میں 99 فیصد سے اوپر ہے اور جان دینے کے لیے ایک فیصد بھی تیار نہیں۔
ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر حکومت کرنے کے لیے سب مَرے جاتے ہیں مگر جب پاکستان کی خاطر جان دینے کا موقع آتا ہے تو کوئی اپنی اولادوں سمیت اپنے اداروں کے ساتھ علامتی اظہار یکجہتی تک کا حوصلہ نہیں پاتا۔ صرف ان کے میڈیا منیجرز ایک بیان داغ دیتے ہیں کہ فلاں واقعہ پر فلاں کو بہت افسوس ہوا۔ اللہ اللہ خیر صلا...
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
سو آرمی چیف کتنی ہی سوچ بچار کے بعد کیوں نہ متعین کیا جائے‘ چاہے ضیاء الحق جیسا مودبانہ و عاجزانہ رویے والا شخص ہو یا کئی جرنیلوں سے جونیئر پرویز مشرف‘ پاکستان سے تب تک مارشل لاء کا خطرہ ختم نہیں ہو گا اور پاکستان تب تک صحیح معنوں میں ترقی نہیں کرے گا جب تک اس کے سیاستدان پاکستان کے فوجیوں کی طرح اپنی اور اپنی اولادوں کی جانیں وطن کی خاطر قربان کرنے کا حوصلہ نہیں کرتے۔ ملک میں بار بار مارشل لاء نافذ ہونے کی یقیناً اور بھی کئی وجوہ ہوتی ہیں لیکن غالباً ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ فوج کے اندر یہ احساس پایا جاتا ہے کہ جانیں فوجی دیتے ہیں اور سیاستدان صرف ملک لوٹ کر کھاتے ہیں، کرپشن کرتے ہیں اور پاکستان کی خاطر جان دینے کا تصور تو دور کی بات جہاں پاکستان کے بیٹوں کا خون گرا ہوتا ہے وہاں پر جانے کا، موقع پر کھڑے ہونے کا، جائے شہادت پر پہنچنے تک کا حوصلہ نہیں کر پاتے۔
پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈالنا ہے‘ پاکستان کو ایک قوم بنانا ہے اور فوج کا مورال بلند رکھنا ہے تو سیاستدانوں کو خصوصاً بزدلی اور بے حسی سے نکل کر حوصلہ کر کے فوج کے شانہ بشانہ اپنی لاڈلی اولادوں سمیت ہر محاذ پر کھڑا ہونا ہو گا۔
نئے آرمی چیف کے تو پورے خاندان نے کئی مرتبہ پاکستان اور پاک فوج کی خاطر قربانی پیش کی ہے اس لیے وہ یقیناً اس عہدے پر جچتے ہیں اور پیشہ ورانہ لحاظ سے بھی اس کے لائق اور اہل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حکمرانوں نے پاکستان کی خاطر کتنی قربانیاں دی ہیں؟؟؟ یا صرف پاکستان اور پاکستانیوں کو بے جان کرنے میں ہی اہم کردار ادا کیا ہے؟ یہ وہ بھی سوچیں اور آپ بھی! اور سابق ایئر وائس مارشل شہزاد چوہدری کے اس بیان پر بھی غور کریں کہ ''نیا آرمی چیف جمہوریت کے لیے مختلف ہو سکتا ہے‘‘ کالم بھیجنے لگا تو ٹی وی پر خورشید شاہ کا بیان چل رہا تھا کہ '' دعاگو ہیں‘ آرمی چیف جمہوریت کی حفاظت کریں‘‘... دُعا تو ہماری بھی یہی ہے مگر دعا کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں سے یہ التجا ہے کہ وہ بھی تو کچھ اس جمہوریت کی حفاظت کرنا سیکھیں ...کیسے...؟؟؟ کرپشن، لوٹ مار، اقرباء پروری، موروثی سیاست میں کمی کرتے چلے جائیں‘ جمہوریت محفوظ ہوتی چلی جائے گی۔ صرف دعائیں کرنے سے کچھ نہیں ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں