ذات دی کوڑھ کِرلی تے چھتیراں نوں جَپھے

آئیے آج لوک دانش سے زندگی جھیلنے کا ہنر سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیاسی، سماجی، معاشرتی معاملات پر کیسے یہ فوک وزڈم رہنمائی فراہم کرتا ہے کہ دنیا میں رائج جدیدترین وکامیاب ترین سیاسی، سماجی ومعاشرتی نظام تواپنی جگہ ؛ اگر ہم اپنی لوک دانش سے ہی سیکھنے کی کوشش کریں ، اس خطے میں جگنوئوں کی طرح جگمگاتے ہوئے صدیوں کے تجربات کو ہی مشعلِ راہ بنا لیں تو زندگی ایسی نہ ہو جیسی اس سرزمینِ پاکستان پہ کروڑوں پاکستانیوں کی ہے۔ کہیں کہیں تبصرے کی چٹکیاں بھرتا جائوں گا،لیکن قارئین اور لوک دانش کے موتیوں کی چمک کے درمیان حائل ہونے کی ہرگز کوشش نہ کروں گا۔ صدیوں سے جلتے ہوئے چراغوں کو بس آپ تک پہچانے کی جسارت ہے ، راہنمائی اور روشنی حاصل کرنا خالصتاً آپ پر منحصر ہے۔
٭اپنے نین گوا کے در در منگی بھیک...
یعنی اپنی آنکھیں گنوا کر در در بھیک مانگنے پر مجبور ہوئے۔ جب کوئی شخص اپنی صلاحیتیں اور پیسہ فضول برباد کر کے زندگی گزارنے اور جسم وجاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے بھیک مانگنے پر مجبور ہو جاتا ہے تو صدیوں سے یہ محاورہ ہونٹوں پہ آجاتا ہے۔
اگربحیثیت قوم ہم نے اپنے وسائل،اپنی صلاحیتیںدیانت داری اور سنجیدگی سے بروئے کار لائی ہوتیںتو آج ہر پیدا ہونے والا پاکستانی بچہ ہزاروں روپے کا مقروض نہ ہوتا... 
٭ جیہدے ہتھ ڈوئی اوہدا ہرکوئی...
جس شخص کے پاس دولت واختیار ہوساری دنیااسی کا ساتھ دیتی ہے،اسی کی طرف رجوع کرتی ہے ، یعنی جس کے ہاتھ میں ڈوئی ہوتی ہے جس سے وہ ہنڈیا میں سے سالن نکال کربانٹتاہے، ہر شخص اسی کی طرف دیکھتا ہے،اسے خوش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اگراس محاورے پہ یقین نہ ہوتومیاں نوازشریف کے اردگردلوگوںکابڑھتا ہوا ہجوم دیکھیں، بات سمجھ میں آجائے گی۔
٭ککڑی نوں تکلے دا داغ وی بتھیرا ہوندا اے...
یعنی کمزوراورغریب آدمی معمولی سانقصان بھی برداشت نہیںکر سکتا...کیا دس پیسے فی یونٹ بجلی یاصرف پچاس پیسے فی لیٹرپٹرول میں اضافہ کرنے والے حکمرانوں کے پیش نظر یہ محاورہ نہیں ہونا چاہیے کہ شاید وہ سمجھ سکیں کہ مہنگائی میں جس اضافے کو وہ ''کچھ نہیں سمجھتے‘‘ غریب کے لیے وہ کچھ نہیں، دراصل بہت کچھ ہوا کرتا ہے بلکہ اتنا کچھ کہ کبھی کبھی تو بظاہر انتہائی معمولی اضافہ بھی غریب کی کمر توڑ دینے کے لیے کافی ہوتا ہے ۔
٭گل دا تھڑکیا بندا تے ٹاہنی دا تھڑکیا باندر فیر نہیں سنبھلدا...
اس ''موتی‘‘ کا صرف ترجمہ کر دوں گا ،کہاں کہاں کس کس پر فِٹ ہوتا ہے، یہ قارئین کی سوچ اور مرضی پر منحصر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس شخص سے موقع پر چوک ہو جائے یا غلط بات بول جائے یا بھول جائے تو اس کی تلافی نہیں کر سکتا ، جیسے بندر کے ہاتھ سے ٹہنی چھوٹ جائے تو وہ سنبھل نہیں پاتا... یعنی بعد میں لاکھ اخباری بیان جاری کیے جائیں ، چیخ چیخ کر کہا جائے کہ میں نے جو کہا اس بات کا یہ مطلب نہیں تھا مگر کوئی ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔گویا غلط بات موقع پر منہ سے نکل گئی تو ایسے ہی ہے جیسے بندر کے ہاتھ سے ٹہنی چھوٹ جائے ،اس کے نتیجے میں بندر چیں چیں کرتا ہوا دھڑام سے نیچے آگرے گا۔ آگے بڑھنے سے پہلے دو شعریاد آگئے ہیں:
 
میں کہتا رہ گیا ویسا نہیں ہوں
سمجھتا ہے مجھے جیسا، نہیں ہوں
نہ مانی اُس نے چلاتا رہا میں
نہیں ہوں یار میں ایسا نہیں ہوں
 
٭مچھی رہی دریا رَن مرچاں کٹے...
یعنی مچھلی دریا سے پکڑی نہیں گئی اور گھر میں عورتیں مچھلی پکانے کے لیے مصالحے تیار کرنا شروع کر دیں۔ جو اس حکومت سے لوڈ شیڈنگ ختم ہونے ، گھروں میں ہُن برسنے ، بم دھماکوں سے فوری چھٹکارا پانے کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں ، انہیں اس اکھان پر ضرور توجہ دینی چاہیے۔
٭ منہ دی رکھی کم آندی اے...
یعنی خوش اخلاقی اچھی چیز ہے...عمران خان سے لے کر بلاول اور بلاول سے لے کر رانا ثناء اللہ صاحب اور اس شخص تک جس نے بلاول کی تقریر میں ''بلا‘‘ ڈالا، شاید جانتے ہی ہوں گے مگر پھر بھی انہیں یاد کرانے میں کوئی ہرج نہیں ہے کہ یہ محاورہ آج نہیں صدیوں سے اس خطے میں رائج ہے، جو عمل کرے گا ، سو پھل پاوے گا۔
٭میں وی رانی تو وی رانی کون بھرے دی پانی...
جہاں سب ہی نواب ہوں یا سارے ہی سست لوگ ہوں یہ محاورہ عموماً اسی محفل یا ''اسمبلی‘‘ کے لیے بنا ہے ۔ امید ہے بلوچستان کے نئے مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے وزیراعلیٰ عبدالمالک صاحب وزیروں سے بھری ہوئی سابق اسمبلی کی طرح اس مرتبہ بلوچستان اسمبلی کو اس محاورے کی عملی تصویر نہ بننے دیں گے ، ورنہ بلوچستان بے چارہ پہلے کی طرح پیاسا ہی رہے گا ، کوئی رانی عوام کی خاطر پانی بھرنے کے لیے تیار نہ ہو گی اور صرف بلوچستان ہی کیا وہ قومی اسمبلی جس میں وزیر سوالوں کے جواب دینے کے لیے موجود ہی نہیں ہوتے اور خود وزیر اعظم بھی اس اسمبلی کو اس لائق نہیں سمجھتے کہ وہاں قدم رنجہ فرمائیں ، وہاں رانیاں ہی رانیاں نظر آتی ہیں ، پیاسے عوام کے لیے پانی کون بھرے۔۔۔۔
٭سس نال ویر تے گواہنڈن نال خیر...
ایسی عورت جو اپنوں سے جھگڑے اور غیروں سے میل ملاپ کرے یعنی ساس سے تو جھگڑا اور پڑوسن سے دوستی... کیا وجہ ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے سے الجھتی نظر آتی ہیں ، ایک دوسرے کی خون کی پیاسی ہیں مگر ان میں سے کئی کے مراسم ایران، سعودی عرب، امریکہ، برطانیہ، لیبیا کے ساتھ بہت اچھے ہیں۔ریاستی سطح پہ نہیں صرف سیاسی پارٹیوں کی سطح پر... اپنوں سے نفرت غیروں سے محبت... اپنے ملک سے سرمایہ نکالنا غیر ممالک میں انویسٹ کرنا... اپنے ملک پہ بے اعتباری غیروں پہ اعتبار ۔یعنی سس نال ویر تے گواہنڈن نال خیر...
٭موت نوں ڈھویا زحمت قبول کیتی...
یعنی بڑی مصیبت آتی دیکھ کر چھوٹی کے لیے تیار ہو جانا... کیا سیاسی پارٹیاںآئندہ عوام کو اتنا سکھ دے پائیں گی کہ آئندہ کبھی انہیں سیاسی ادوار بڑی مصیبت اور فوجی ادوار چھوٹی مصیبت نہ لگیں؟
٭ جیہو جئی کند ھ اوہو جیا تھوبا...
یعنی جیسا انسان ہو ویسا ہی اس کے ساتھ سلوک کرنا چاہیے... آنے والے دن پاکستانی عوام کو بتا دیں گے کہ مسلم لیگ ن پاکستانیوں کو کیسا انسان سمجھتی ہے کیونکہ جیسا انسان سمجھتی ہے ویسے ہی ''تھوبے‘‘ عوام کو پڑنے والے ہیں... بلکہ پڑنے شروع ہو چکے ہیں۔ یہ'' تھوبوں ‘‘ہی کا ری ایکشن ہے جو ریلیوں اور دھرنوں میں تیزی آتی جا رہی ہے ۔
اور آخر میں جب اس کمزور معیشت ،کمزور سماج ،کمزور دفاع کے ساتھ پاکستان میں ڈرون گرانے کی بات ہوتی ہے تو پتا نہیں کیوں پنجابی کے خوبصورت ترین محاوروں میں سے یہ محاورہ بلا تبصرہ ضرور ذہن میں گونجتا ہے:
٭ ذات دی کوڑھ کِرلی تے چھتیراں نوں جَپھے...
لیجئے جانے سے پہلے اقبال بھی یاد آگئے ہیں۔ انہی پہ کالم کا اختتام کرتے ہیں:
 
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں