خوشحال جانور

کون ذی روح ہو گا جو 6 سالہ ننھی فضہ پر استاد کے بہیمانہ تشدد کی تفصیل پڑھ‘ دیکھ اور سن کر دکھی نہ ہو۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ بے شمار انسانوں کے اندر حیوان مقیم ہوا کرتے ہیں‘ لہٰذا اس قسم کے واقعات پوری دنیا میں اور نام نہاد مہذب ممالک میں بھی سامنے آتے رہتے ہیں کہ دنیا کا کوئی بھی ملک کیوں نہ ہو‘ فرشتے تو کہیں بھی نہیں بستے لیکن یہ بات یقینا قابلِ غور ہے کہ اس قسم کے واقعات جس تواتر کے ساتھ پاکستان میں پیش آتے اور رپورٹ ہوتے ہیں (خیال رہے ابھی سارے رپورٹ نہیں ہو پاتے) اس کی مثال شاید ہی کہیں اور ملتی ہو۔
بعض اوقات ہم ان واقعات کی کھوج میں اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ شاید اس کا واحد سبب غربت ہے۔ یقینا غربت ان واقعات کا ایک اہم سبب ضرورہے مگر صرف غربت ہی نہیں۔ ہمیں مان لینا چاہیے کہ غریب ہو یا امیر‘ جاہل ہو یا ان پڑھ یا عالم فاضل اور پڑھے لکھے‘ ہمارے ہاں ہر سطح پر اخلاقی گراوٹ اپنی بلندیوں کو چھوتی نظر آتی ہے۔ اخلاقی گراوٹ سے مراد یہ کہ یہاں آپسی معاملات میں درگزر‘ ایثار‘ محبت‘ رواداری کے بجائے تشدد، جھوٹ ، مکر، فریب، دھوکہ دہی اور بے ایمانی کا غلبہ ہے۔ چھ سالہ پھول سی بچی فضہ پر تشدد کر نے والا استاد تو چلیں ایک غریب سکول ماسٹر ہے جو یقینا فضہ کو پڑھانے کے دوران بجلی کے بل کی ادائیگی سے لے کر ماہانہ اخراجات کی تنگی جیسے جانے کتنے مسائل کا شکار ہو گا‘ غربت نے پہلے ہی جس کا دماغ خراب کر رکھا ہو گا‘ لیکن پچھلے دنوں ڈیفنس جیسے پوش علاقوں میں جو کھاتے پیتے پروفیسر ملازم بچی پر تشدد میں ملوث پائے گئے‘ ان کے بارے میں کوئی کیا کہے گا؟
اسی طرح کے تشدد کا واقعہ پچھلے دنوں کراچی سے بھی رپورٹ ہوا تھا جس میں ملازم بچے کو پانچویں یا چھٹی منزل سے دھکا دے دیا گیا تھا۔ غالباً وہ صاحب بھی کوئی ڈاکٹریا وکیل تھے۔ جو بھی تھے‘ معاشرے کے نام نہاد کھاتے پیتے پڑھے لکھے طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔
آج کا عمر اکمل اور وارڈن کا واقعہ دیکھ لیں یا وزیرداخلہ صاحب کی اپنی گاڑی روکنے پر برہمی کی خبر پر غور کر لیں۔ صرف غرباء ہی نہیں‘ امراء بھی ہر وقت اور ہر موقع پر تشدد اور لڑنے جھگڑنے پر مائل اور اسی کے قائل نظر آتے ہیں۔
بحیثیت قوم ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے کہ ہماری قوم کا پارہ ہر وقت کچھ ڈگری ہائی کیوں رہتا ہے؟ ہمارے معاشرے سے برداشت، تحمل رواداری، باہمی احترام جیسی صفات برف کی طرح پگھلتی کیوں چلی جا رہی ہیں؟ اور ہمارے اندر کے حیوان رسیاں تڑوا کر ہر لمحے باہر آنے کو بے چین کیوں رہنے لگے ہیں؟ سکول ماسٹر والے واقعے کو چھوڑ کر ہر واقعے میں آپ کو کھاتے پیتے لوگ ملوث نظر آئیں گے جنہوں نے یقینا اپنی انائوں کو بھی کھِلا کھِلا کر خوب ہی فربہ کر لیا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران جو ہر وقت معاشیات اور اقتصادیات کی بہتری اور بحالی کا نعرہ لگاتے رہتے ہیں‘ کیا اس میں کامیابی کے بعد ایک پُر امن معاشرہ نصیب ہو پائے گا ہمیں ؟ یقینا اس کا جواب نہیں میں ہو گا۔ اسے دیوانے کا خواب ہی کہا جا سکتا ہے کہ معاشرے صرف معاشیات اور اقتصادیات میں ترقی کرنے سے پُرامن نہیں ہوا کرتے۔ معاشرے جنت کا نمونہ تب پیش کرتے ہیں جب ہر سطح پر تعلیم و تربیت اور اخلاقیات پر توجہ دی جاتی ہو۔ جب نواز شریف صاحب نے اقتدار سنبھال کر معاشیات کے بیل آئوٹ پیکج کا نعرہ لگایا تھا‘ اس وقت بھی انہی کالموں میں گزارش کی تھی کہ معاشیات کے بیل آئوٹ پیکج کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کے بیل آئوٹ پیکج کا بھی کچھ بندوبست کریں کہ اول تو اس کے بغیر معاشی ترقی ممکن ہی نہیں ہوا کرتی اور بے پناہ وسائل کے ملک پاکستان کی نعمتوں اور برکتوں کے باعث ایسا ہو بھی جائے تو کیا ہو گا؟ آج بدحال لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کر رہے ہیں‘ کل خوشحال لوگ ایک دوسرے سے اسی طرح لڑ جھگڑ رہے ہوں گے‘ دھونس دھاندلی تشدد میں مبتلا ہوں گے جیسے آج ہیں۔ علم، تربیت ،اخلاقیات اور روحانی تطہیر پہ توجہ دئیے بغیر خوشحالی اگر نصیب ہو بھی گئی تو بھی ہمیں مہذب انسانوں کی طرح آپس میں امن سے رہنا نصیب نہیں ہوگا۔ ننھی پھول جیسی فضہ پر تشدد سے لے کر عمر اکملوں اور وارڈنوں کے جھگڑوں اور طاقت وروں کی قانون پر برہمی تک جیسے واقعات ہی ہمارا نصیب ہوں گے۔
اخلاقیات کے بجائے صرف معاشیات واقتصادیات پر ہی توجہ دی جاتی رہی تو ہم زیادہ سے زیادہ کیا ہوں گے...؟ خوشحال جانور۔ 
نوٹ:۔ تھرکول بجلی منصوبے کا مشترکہ افتتاح یقینا ایک تاریخی واقعہ ہے جس کے لیے دونوں بڑے مبارک باد کے مستحق ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں