ودھیاں جہالتاں تے علم والا ہریا

حارث کی کامیابی صرف اس کے والد رائے ناصر اور والدہ کی کامیابی نہیں ہے بلکہ اگر سیکھنا چاہیں تو حارث کی کامیابی سے ہم سبھی سیکھ سکتے ہیں کہ سچ یہی ہے کہ نو سالہ حارث ہو یا کوئی 90 سالہ بزرگ‘ سیکھنا چاہے تو سب سے کچھ نہ کچھ سیکھ سکتا ہے‘ بلکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ سیکھنے کے لیے کسی کی کامیابی پر غور کرنا ہی ضروری نہیں‘ سیکھنے والے ناکامی سے بھی سیکھا کرتے ہیں مگر جو لوگوں‘ ملکوں یا قوموں کی کامیابی میں کیڑے نکالتے ہوں اور اپنی ناکامی کو اغیار کی سازشوں اور تقدیر کے کندھوں پر ڈالنے کے عادی ہوں‘ ان کی حالتِ زار یقیناً ہم پاکستانیوں جیسی ہوا کرتی ہے۔
او لیول کا امتحان پاس کرنے کی نارمل عمر سترہ اٹھارہ سال ہوا کرتی ہے‘ مگر عمر کے لحاظ سے ننھے مگر ذہنی لحاظ سے قدآور حارث نے او لیول کا امتحان‘ وہ بھی سائنس مضامین کے ساتھ‘ صرف نو برس کی عمر میں پاس کر کے علم دشمن حکمرانوں اور معاشرے کو ایک پیغام ضرور دیا ہے کہ وہ جتنا چاہے علم دشمن پالیسیاں بناتے رہیں‘ حبس اور گھٹن کا چاہے کیسا ہی ماحول کیوں نہ پیدا کرتے رہیں‘ پاکستانی معاشرے میں حارث منظور جیسے تازہ ہوا کے جھونکے، پاکستانیوں کی امیدوں کے سانس بحال کرتے رہیں گے۔
اپنے آقاؐ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ''اقراء‘‘ کی شمع تھامے ننھے فرشتے حارث منظور کا ورلڈ ریکارڈ یقیناً پورے پاکستان کا اعزاز ہے۔ حارث کی کامیابی کی کہانی بھی بڑی دلچسپ اور منفرد ہے جو ان والدین کے لیے یقیناً چشم کشا ہو سکتی ہے جو بچوں کو تربیت اور وقت دینے کے بجائے ہزاروں روپے کی فیس والے پری سکول اور دیگر مہنگے سکولوں کی فیس اکٹھی کرنے کی جدوجہد میں سارا وقت کمانے میں صرف کر دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ سکول مالکان کی جیبیں بھرنے کے بعد کامیابی ان کے بچے کو پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دی جائے گی۔ 
صرف پانچ سال کی عمر میں ناظرہ قرآن مکمل کرنے اور تیسواں پارہ حفظ کرنے والے حارث منظور نے پری سکول کا منہ تک نہیں دیکھا اور نہ صرف پری سکول بلکہ ابتدائی کلاسز بھی اس کے والدین نے گھر پر ہی پڑھائیں۔ یقیناً حارث کی کامیابی میں اس کے گفٹڈ ہونے کا بہت دخل ہے‘ مگر یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ والدین اگر مہنگے سکولوں پر انحصار کرنے کے بجائے بچے پر ذاتی توجہ دیں تو یقیناً بے شمار پاکستانی بچے حارث جیسے کارنامے سرانجام دے سکتے ہیں۔ 
سکولوں میں بچہ کس طرح معاشرتی میل جول سیکھتا ہے‘ کیسے اس کی شخصیت میں برداشت، تعاون، ہمدردی، ٹیم ورک جیسی عادتیں پختہ ہوتی ہیں‘ اس کی اہمیت سے کون انکاری ہے مگر صرف مہنگے سکولوں سے بچے کی کامیابی و کردار سازی کی ساری امیدیں وابستہ کر لینا یقیناً دانشمندی نہیں۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جب ہم معاشرے کو تکلیف دینے والوں یا معاشروں اور قوانین کی توہین کرنے والوں کو برباد اور تہہ و بالا کرنے کے لیے خوب شور مچاتے ہیں اور ٹھیک شور مچاتے ہیں اور ان کی بیخ کنی کے لیے اجتماعی وسائل صرف کرنا جائز سمجھتے ہیں تو کیا حارث جیسے ذہین و فطین بچوں اور طالب علموں کی بھی اونرشِپ معاشروں کو مشترکہ طور پر قبول نہیں کرنی چاہیے؟ معاشرے کو برباد کرنے والوں کے لیے عوام کے ٹیکس سے اسلحہ خریدنے والی قوم کو کیا معاشرے کو حارث جیسا نازوفخر عطا کرنے والوں کی اعلیٰ تعلیم کی ذمہ داری اٹھانے کا بندوبست بھی نہیں کرنا چاہیے؟
مگر ایسی کوئی توجہ نہ حکمرانوں کی طرف سے دی جاتی ہے‘ نہ دی گئی‘ نہ ہی میڈیا نے حارث کی کامیابی کو وہ اہمیت دی جو سنسنی پھیلانے والی کسی معمولی خبر کو بھی دی جاتی ہے۔ مگر کیا گلہ کریں۔ عقل و دانش، ہوش مندی اور علم و ہنر سے نفرت کرنے والے معاشرے ایسے ہی ہوا کرتے ہیں۔ بقول قاسم شاہ صاحب۔
ودھیاں جہالتاں تے علم والا ہریا
کالم بھیجنے لگا کہ ایک اور اطلاع ملی کہ ہنزہ کے 8 سالہ محسن نے چھ ہزار 50 میٹر بلند چوٹی سر کر لی ہے۔ برف پوش پہاڑوں تک میں خون کی ہولی کا نظارہ کرنے والی قوم کے لیے یقیناً یہ بھی ایک خون بڑھا دینے والی خبر ہے۔ اور ایسے میں پاکستان کی ایک اور بیٹی ارفع کریم کی بھی یاد آئی کہ جس کے ذکر سے سیاسی مائلیج تو حکمران حاصل کرتے رہے مگر جو وعدے اس کے والدین سے کیے گئے تھے ان کا اب کوئی ذکر نہیں کرتا۔ ویسے بھی جہاں حکمران فخر سے کہتے ہوں کہ وعدے کوئی قرآن و حدیث نہیں ہوتے‘ یا یہ کہ الیکشن میں اس قسم کے وعدے کیے جاتے ہیں لہٰذا الیکشن کے بعد ان وعدوںکا ذکر نہ کریں۔ جہاں حکمرانوں کی ڈھٹائی، بے حسی اور اخلاقی انحطاط کا یہ عالم ہو وہاں حکمرانوں کو کیا کوئی وعدہ یاد دلانا۔ اگر حکمرانوں نے اپنے وعدے پورے کیے ہوتے یا عوام نے کیے گئے وعدوںکو گردن پر انگوٹھا رکھ کے پورا کروایا ہوتا تو قاسم شاہ کو ایسی نظمیں نہ لکھنی پڑتیں جس میں ایسے چبھتے ہوئے مصرعے ہوتے۔ کبھی پوری نظم بھی پیش کروں گا۔ ابھی تو وہی مصرعہ مکرر عرض ہے۔ 
ودھیاں جہالتاں تے علم والا ہریا
چلتے چلتے اتنی گزارش اور کہ جو قومیں اپنے قلم تھامنے والوں کا احترام نہیں کرتیں‘ ان کی عزت و توقیر نہیں کرتیں انہیں اپنے سروائیول کے لیے آگے چل کر بندوق اٹھانے والوں سے مذاکرات کرنے پڑتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں