یہ ایسے تو نہیں ہوگا

اس اعتراف کی اب کوئی اہمیت یا ضرورت نہیں کہ پاکستان کے پاس قدرتی آفات سے نمٹنے کا کوئی تسلی بخش انتظام نہیں۔اگر کوئی ٹوٹا پھوٹا انتظام ہے بھی تو اس کا منشور جب سر پہ آئے گا تب دیکھ لیں گے اور اللہ مالک ہے۔ کہنے کو کاغذ پر سب دستیاب ہے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کی کوششوں کو مربوط کرنے کے لئے مرکزی و صوبائی سطح پر نیشنل ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی فعال ہے۔ دریائی بندوں کی تعمیر و توسیع اور دیکھ بھال کے لئے تنخواہ دار عملہ بھی ہے اور اس مد میں ہر سال صوبائی بجٹ میں اچھی خاصی رقم بھی مختص کرنے کا رواج ہے ۔لیکن یہ سب انتظام تب تک موثر ہے جب تک مصیبت نہیں آتی۔ جب مصیبت سر سے گزر جاتی ہے تو پھر خود احتسابی و تادیبی کارروائی کا خلا نامزد تحقیقاتی کمیٹیوں ، عارضی معطلیوں، تبادلوں ، سرزنش کا سرکس سجا کے پر کیا جاتا ہے ۔وہ فلانے کی غفلت کے سبب ہوا اور اس کی ذمہ داری ڈھماکے پر عائد ہوتی ہے۔ یہ میرا نہیں اس کا کام تھا اور میرا جو کام تھا اس میں فلاں فلاں رکاوٹ ڈالی گئی کا غل مچ جاتا ہے ۔یوں اگلی آفت آنے تک زندگی پھر اپنے دھرے پر چل پڑتی ہے ۔
قدرت آخر کس کس انداز میں انتباہ کرے ، کیسے کیسے سبق دے کہ سب سیدھے ہو کر کم ازکم اپنے حصے کا کام کرلیں۔کیا اس خطے میں سیلاب پہلی مرتبہ آیا ہے ؟ آزادی کے بعد سے اب تک سابق مغربی پاکستان میں یہ چھٹا بڑا سیلاب ہے ۔اگر ان چھ سیلابوں کی مجموعی انسانی و مالی بربادی کو پیسوں کے ترازو میں تولا جائے تو اس رقم سے باآسانی دو نئے پاکستان کھڑے کئے جا سکتے تھے ۔مگر بقول جمال احسانی مرحوم ہم نے جتنی محنت خود کو پسماندہ اور غریب رکھنے کے لئے کی‘ اس سے آدھی محنت میں ہم ترقی یافتہ بھی ہوسکتے تھے ۔لیکن جب بندہ ہی اپنی جہالت پر قانع ہو تو اللہ بھی کیا کرے۔ منہ سے بھلے کچھ بھی کہیں مگر ہمارا آئیڈیل وہ خدا ہے جو اونٹ بھی عطا کرے ، اسے چارا بھی خو د کھلائے اور اس کا زانو بھی کسی فرشتے سے بندھوا کر بس اس کی نکیل ہمیں تھما دے ۔
دریاؤں کی سرزمین مشرقی پاکستان جب تک متحدہ ملک کا حصہ تھا تب تک وہاں ہر برس دو برس بعد سمندری طوفانوں اور دریائی طغیانی کا گٹھ جوڑ آدھے صوبے کو ڈبو دیا کرتا تھا۔ بھلا ہو آزادی کا کہ انہوں نے عالمی اداروں کی مدد سے وارننگ ، بچاؤ بند اور شیلٹر کا ایسا مربوط نظام قائم کرلیا جس کے سبب سمندری طوفان کو اب لاکھ سوا لاکھ لاشوں کا رزق نہیں ملتا جو انیس سو اکہتر سے پہلے معمول کی بات تھی۔جو لوگ سیاست میں بنگلہ دیشی ماڈل کو سراہتے ہیں کاش ڈز اسٹر مینجمنٹ کے بنگلہ دیشی ماڈل کا بھی کبھی مطالعہ فرماویں۔
یہ درست ہے کہ انسان کی ناعاقبت اندیشی کے سبب جو ماحولیاتی قیامت‘ کرہِ ارض پر قسط وار ٹوٹ رہی ہے‘ اس کا ادراک پوری طرح سے نہیں ہو پارہا ۔لیکن پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی نتائج بھگتنے والے ممالک کی فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے ۔ پھر بھی اس کی قومی ترجیحات میں آفات سے نمٹنے کا معاملہ کس نمبر پر ہے ؟ کم ازکم چوٹی کے دس بڑے مسائل کی لسٹ میں تو دکھائی نہیں دے رہا۔
اس بنیادی بات کی سمجھ کتنے فیصلہ سازوں کو ہے کہ قدرتی آفات سے نمٹنے کا نظام اوپر سے نہیں نیچے سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے لئے بلدیاتی نظام کا فعال ہونا ضروری ہے تاکہ مقامی سطح پر ریلیف اینڈ ریسکیو کو ضلعی نوکر شاہی ، شہری دفاع کے رضا کاری نظام، ہسپتالوں، پولیس، بھاری امدادی مشینری سے لیس سرکاری و نجی اداروں اور فلاحی تنظیموں سے جوڑا جاسکے ۔ 
انگریز دور میں مون سون سیزن شروع ہونے سے دو ماہ پہلے 
ڈپٹی کمشنر کی یہ لازمی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنے زیرِ انتظام علاقے یعنی ضلع میں محکمہ آبپاشی کے اہلکاروں، پولیس، مجسٹریٹوں، تعلیمی اداروں کے سربراہوں اور محکمہ صحت کے عمل داروں کے ساتھ بیٹھ کر سالِ گزشتہ کی کارکردگی کا جائزہ لے اور درپیش مون سون سے جنم لینے والے ممکنہ مسائل و زرعی و رہائشی نقصانات کا ایک اندازہ مرتب کرے اور مشاورت سے طے کردہ منصوبے کی نقول تمام ضروری اداروں کو اپنی کم از کم پیشگی ضروریات کے ساتھ یقینی طور سے ارسال کرے اور اس کام کے مقرر کردہ اہداف پر عمل درآمد کو یقینی بنائے اور بذات خود اس پورے عمل کی نگرانی کرے اور بذریعہ کمشنر گورنر کے دفتر کو مسلسل آگاہ رکھے۔ مجھے کوئی بتا سکتا ہے کہ گزشتہ برسوں کو تو جانے دیجئے اس برس کتنے اضلاع کے انتظامی سربراہوں نے ایسی یا اس سے ملتی جلتی کوئی مشق فرمائی ہو یا انہیں اوپر سے یہ مشق فرمانے کی کسی نے ہدایت فرمائی ہو ۔گھوم پھر کے بات وہیں آجاتی ہے کہ گاہک اپنے نقصان کا خود ذمہ دار ہوگا۔ بھلا ہو پاکستانی قوم کے جذبہِ ایثار کا جو میں بچشم خود سن تہتر سے دو ہزار دس کے سیلابوں تک دیکھتا آرہا ہوں۔اور سن دو ہزار پانچ کا زلزلہ تو اس ایثار کی شاہراہ کا سنہری سنگِ میل ہے ، جب 
سب نے محسوس کیا کہ اس حجم کی قیامت سے اکیلے نمٹنا کسی بھی حکومت کے بس کی بات نہیں۔سوائے اس کے کہ اپنی مدد آپ کی جائے اور مصیبت زدوں کا ہاتھ تھام لیا جائے۔ دو ہزار پانچ کے زلزلے نے پہلی بار ثابت کیا کہ میڈیا کی سافٹ پاور اگر انسانیت کے ساتھ انسانیت کے لئے استعمال کی جائے تو کیا کیا معجزہ نہیں ہوسکتا۔حکومتی و سیاسی کارکردگی میں مین میخ نکالنے کے لئے تو زندگی پڑی ہے ۔اگلے پندرہ دن میں میڈیا چاہے تو پھر زیرو سے ہیرو ہوسکتا ہے۔ لاحاصل بحث و مباحث کی سکرینی کثافت بھی دھل سکتی ہے۔ بس کیمروں کا رخ ہی تو موڑنا ہے ۔بس عام آدمی کو دوسرے عام آدمی کی مدد کے لئے ہی تو آمادہ کرنا ہے۔ بس سٹوڈیوز سے نکل کر کھلے میدانوں میں نشریاتی امدادی خیمہ ہی تو گاڑنا ہے ۔بس سرکردہ اور ایماندار فلاحی تنظیموں کے ساتھ مشترکہ بینک اکاؤنٹ ہی تو کھولنا اور اس کے لئے بلا معاوضہ اپیلیں ہی تو نشر کرنی ہیں۔ بس کسی بھی جگہ پانی میں پھنسے لوگوں کی علاقہ وار فوری ضروریات کے بارے میں اعلانات ہی تو کرنے ہیں۔بس پانی کے راستے میں بیٹھے لوگوں کو بار بار وارننگ ہی تو دینی ہے۔ کیا یہ سب بہت مشکل ہے؟ نہیں! کم آن! تم یہ پہلے بھی کرچکے ہو۔ تم اب بھی کرسکتے ہو۔ اب اٹھ بھی جاؤ کاہل...! 
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لئے bbcurdu.com پر کلک کیجئے) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں