سینتالیس میں برٹش انڈیا کی جو پارٹیشن ہوئی،اس میں پاکستان اور بھارت سے ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ لوگوں نے سرپٹ ہجرت کی ، عقیدے کی برچھیوں سے پانچ تا بیس لاکھ انسان قتل ہوئے ۔ایک بڑی تعداد میں خواتین اغوا ہوئیں۔لاکھوں خاندان بٹ گئے (تخمینے کا دارومدار اس پر ہے کہ آپ کس ملک میں کس کی لکھی ہوئی تاریخ پڑھتے ہیں ) علمی ، سماجی اور اقتصادی اثاثوں کی تقسیم اور سرحدی حد بندی میں ڈنڈی ماری گئی ۔اڑسٹھ برس میں چار باقاعدہ جنگیں ، سینکڑوں چھوٹی چھوٹی لڑائیاں اور جھڑپیں ہوئیں اور ایک مستقل سرد جنگ مسلسل ہے ۔اپنا تحفظ ،دوسرے کو علاقائی و عالمی سطح پر لگاتار نیچا دکھانے میں ڈھونڈا گیا اور ایک دوسرے سے بچنے کے لئے روائتی و جوہری ہتھیاروں کا انبار جمع کرلیا گیا اور اس پر بڑھتی ہوئی متعصبانہ اور فرقہ وارانہ سوچ کا تڑکا الگ سے لگا لیا گیا ۔غرض ایک جاری و ساری المیہ ہے جو دو آزاد ریاستوں کو نفسیاتی غلام بنائے ہوئے ہے ۔
سن ستر کے انتخابی نتائج نے دیوار پر لکھ دیا کہ مشرقی پاکستان مغربی پاکستان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتا۔مگر یہ کیسے ممکن تھا کہ متحدہ پاکستان کے دونوں حصے چھترو چھترم ہوئے بغیر کسی فیصلے پر پہنچ جائیں۔ چنانچہ ایک حصے نے دوسرے حصے کو اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں،پڑھوانے کے لئے ہر طرح کا حربہ آزما لیا۔لاکھوں شہری مرے ، ایک کروڑ سے زائد گھر چھوڑ کے بھاگ گئے ۔ہزاروں ریپ ہوئے ، ایک پوری فوجی کمان نے ہتھیار ڈالے ، شکست خوردہ ملک کی آمرانہ حکومت کو وہیں کے لوگوں نے گریبان سے پکڑ کے منبرِ اقتدار سے کھینچا، تب جا کے تقسیم کا عمل مکمل ہوا۔زمانہ آگے نکل چکا مگر تینتالیس برس بعد بھی زخم سے ٹیسیں اٹھتی ہیں ۔اس دوران پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات رسمی مسکراہٹوں ، علامتی تجارت اور بعض معاملات پر نمائشی ہم آہنگی سے آگے نہیں بڑھ پائے ۔
جنوبی سوڈان دنیا کی سب سے نوزائیدہ مملکت ہے ،مگر اس منزل تک پہنچنے کے لئے اسے قیامت سے گزرنا پڑا۔سوڈان کی مسلم اکثریتی مرکزی حکومت کو یہ بات سمجھنے میں دو خانہ جنگیاں ، پچیس لاکھ افراد کی ہلاکت ، لاکھوں کی بے گھری اور انفراسٹرکچر کی تباہی کے پچاس برس لگے کہ جنوبی سوڈان کی غیر مسلم اکثریت اپنا ملک چاہتی ہے ۔چنانچہ اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں ریفرنڈم ہوا جس میں ننانوے فیصد جنوبی سوڈانیوں نے آزادی کے حق میں فیصلہ دیا تب جا کے آزادی نصیب ہوئی ۔ مسئلہ یہ ہے کہ متحدہ سوڈان کے پچھتر فیصد تیل کی پیداوار ان کنوؤں سے آتی تھی جو اب آزاد جنوبی سوڈان میں ہیں اور جنوبی سوڈان یہ تیل تب تک برآمد نہیں کر سکتا جب تک یہ تیل خرطوم حکومت کی پائپ لائنوں سے گزر کے بندرگاہ تک نہ پہنچے ۔اس کے علاوہ کچھ کنوؤں اور علاقوں پر دونوں ملکوں کا مشترکہ دعویٰ بھی ہے ۔لہٰذا گزشتہ برس دونوں ملکوں میں ایک محدود جنگ ہوچکی ہے ۔نوآزاد جنوبی سوڈان تیل کی دولت کے باوجود صحت ، تعلیم ، معاشی ڈھانچے ، پناہ گزینوں کی تعداد اور
قبائلی بدامنی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے مظلوم و پسماندہ ملک ہے ۔متحدہ سوڈان سے پیدا ہونے والے دونوں ممالک کا ایک دوسرے کے بغیر گزارا نہیں مگر دونوں ایک دوسرے کو ایک آنکھ نہیں بھاتے ،لہٰذا آزادی بھی پاؤں میں پڑی بیڑی بن چکی ہے ۔
پہلی عالمی جنگ کے بعد جب یورپی سلطنتیں ٹوٹنے لگیں تو بہت سے نئے ممالک وجود میں آئے ۔ان میں سے ایک ملک آسٹرو ہنگیرین ایمپائر کے بطن سے پیدا ہونے والا چیکوسلواکیہ بھی تھا ۔ اس میں دو بڑی قومیں چیک اور سلواک آباد تھیں۔چیک چھیاسٹھ فیصد اور سلواک تینتیس فیصد ۔چیک آزاد خیال عیسائی اور سلواک قدامت پسند رومن کیتھولک ۔ چیک صنعتی طور پر ترقی یافتہ اور سلواک زراعت پیشہ ۔آزادی کے بیس برس بعد چیکو سلواکیہ پر نازی جرمنی نے قبضہ کرلیا اور نازیوں کی شکست کے بعد سوویت یونین کے سیاسی و نظریاتی تسلط میں آگیا۔
1991ء میں جب سوویت یونین ٹوٹا تو اس وقت بھی چیکو سلواکیہ مشرقی یورپ کا سب سے ترقی یافتہ صنعتی ملک تھا،لیکن سوویت تسلط کے خاتمے کے بعد جب چیکو سلواکیہ کی قومیتوں نے گزشتہ برسوں میں کیا کھویا کیا پایا کا اندرونی جائزہ لینا شروع کیا تو سلواک قوم پرستوں کو احساس ہوا کہ وفاقی ڈھانچے میں چیک لوگوں نے زیادہ فائدہ اٹھایا۔بیشتر صنعتی ترقی چیک علاقے میں ہوئی اوربے روزگاری کی شرح سلواک علاقے میں زیادہ رہی،جبکہ قومی پیداوار میں بھی سلواکیوں کا حصہ بیس فیصد کم ہے ۔
چنانچہ سلواک قوم پرستوں نے ولادی میر میسیار کی قیادت میں سلواکیہ کی علاقائی پارلیمنٹ میں وفاق سے علیحدگی کی قرار داد منظور کروالی ۔ فیڈریشن کے شاعر صدر ویسلاف ہاول نے بہت دکھ کے ساتھ استعفیٰ دے دیا۔علیحدگی کے سوال پر ریفرنڈم ہوا لیکن اس میں چیکو سلواکیہ کے صرف چھتیس فیصد شہریوں نے وفاق توڑنے کی حمائت کی ۔اس کے بعد چیک رہنما ویسلاف ہاول اور سلواک رہنما میسیار نے ملاقات کی اور معاملہ وفاقی پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔پارلیمان میں فیڈریشن کے حق میں دھواں دھار تقاریر ہوئیں لیکن سلواک ارکانِ پارلیمان آزادی کے مطالبے پر مصر رہے ۔چنانچہ چیک ارکان نے عددی اکثریت کے باوجود سلواک ارکان کے مطالبے کو تسلیم کرلیا۔اس فیصلے کے پیچھے یہ فلسفہ تھا کہ ؎
میں نے یہ سوچ کے روکا نہیں جانے سے اسے
بعد میں بھی یہی ہوگا تو ابھی میں کیا ہے
( شعور)
چنانچہ اکتیس دسمبر 1992ء کو چیکو سلواکیہ ختم ہوگیا اور چیک ری پبلک اور سلواک ری پبلک کے نام سے دو علیحدہ ملک وجود میں آگئے ۔ دونوں میں سے کسی ملک نے سابق چیکو سلواکیہ کی جانشین ریاست ہونے کا دعویٰ نہیں کیا اور اقوامِ متحدہ کی رکنیت دو نئی ریاستوں کی حیثیت سے حاصل کی۔فوجی اور سویلین اثاثوں کی تقسیم ایک اور دو کے تناسب سے ہوگئی۔چیکو سلواکیہ کے پرچم میں سے شیر چیک ری پبلک نے لے لیا اور صلیب سلواکیہ کے حصے میں آ گئی۔چیکو سلواکیہ کے دو بندوں پر مشتمل قومی ترانے کا چیک بند چیک ری پبلک نے اپنا لیا اور سلواک زبان کا بند سلواکیہ کا قومی ترانہ بن گیا۔کرنسی ( کرونا ) مشترک ہی رہی، مگر 2010ء میں سلواکیہ نے یورو کرنسی اپنا لی۔دونوں ممالک چونکہ یورپی یونین کا حصہ ہیں اس لئے دونوں کے شہری بلا روک ٹوک ایک دوسرے کے ہاں بس سکتے ہیں۔دونوں ممالک نے جب کوسوو میں اقوامِ متحدہ کی امن فوج کے لئے اپنے دستے بھیجے تو ان کا کمانڈر مشترکہ تھا۔ جب اٹھارہ دسمبر 2011ء کو متحدہ چیکو سلواکیہ کے آخری صدر ویسلاف ہاول کا انتقال ہوا تو دونوں ریاستوں میں یکساں سوگ منایا گیا اور ایک ہی مشترکہ دعائیہ تقریب رکھی گئی ۔دونوں ممالک میں جب بھی نیا صدر منتخب ہوتا ہے تو اپنا پہلا اور آخری غیر ملکی دورہ ایک دوسرے کے ملک کا ہی کرتا ہے ۔
اگلے کالم میں اس موضوع پر کچھ اور زندہ کہانیاں پیش کرنا چاہوں گا۔
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لئےbbcurdu.com پر کلک کیجئے )