مجھے کمالو وٹہ یاد آرہا ہے

پنجابی میں ڈھیلے یا چھوٹے پتھر کو وٹہ کہا جاتا ہے ۔وٹہ ایک ہی جگہ پڑا رہتا ہے جب تک اسے کوئی نہ ہلائے ۔مگر آپ کمالو وٹے سے واقف نہیں ہوں گے ۔دیکھنے میں کمالو ہم آپ میں سے بہت سوں جیسا ہی تھا۔بی اے پاس ، صحت مند ، خوش شکل ، کڑکیلا شلوار قمیض ، ہر شے کے بارے میں اپنی ایک رائے۔ والد اس اکلوتے کے لئے کچھ جائداد بھی چھوڑ گئے تھے لہٰذا کمالو وٹے کا گزارا ہو جاتا تھا۔پر کمالو کا نام وٹہ کیوں پڑا۔وجہ بس اتنی سی تھی کہ صبح سے شام تک کمالو کا ایک ہی کام تھا کہ وہ گھر کے باہر کی چوڑی گلی کے مخصوص تھڑے پر کرسیاں ڈلوا کے بیٹھ جاتا۔وہیں اخبار بینی ، میل ملاقات ، چائے پانی ۔جسے شادی غمی میں لے جانا ہوا تو اپنی گاڑی میں بٹھا کر لے گیا اور پھر اسی استھان پر چھوڑ گیا۔کوئی نہ کوئی کبھی کبھار ہمت کرکے پوچھ ہی لیتا کہ بھائی کمالو آپ خود سے کہیں آتے جاتے نہیں ؟ اس پر کمالو کا ایک ہی جواب ہوتا ‘‘ سیانے کہہ گئے ہیں پتھر اپنی جگہ پر ہی بھاری ہوتا ہے ‘‘۔۔۔خود کمالو کو بھی اچھی طرح علم تھا کہ لوگ اسے کس لقب سے یاد کرتے ہیں مگر بھائی کمالو نے تو جیسے برا ماننا اور ٹس سے مس ہونا سیکھا ہی نہیں تھا۔اور پھر ایک دن بھائی کمالو کو بہت سے لوگ وٹے کی طرح داب آئے ۔
مجھے یاد ہے نواز شریف کے پہلے دو ادوار میں یوں لگتا تھا جیسے بھٹو دور کے بعد پہلی مرتبہ ہر شے رولر کوسٹر پر ہے ۔معاشی سرگرمی بڑھ رہی ہے ۔سیاسی درجہ حرارت ایک دن ننانوے پر ہے تو دوسرے دن ایک سو چار پر اور تیسرے دن سو پر۔کمیونی کیشن میں انقلاب آرہا ہے ۔موبائل فون پھل پھول رہا ہے ۔موٹر ویز اور ہائی ویز پر زور ہے ۔ایشین ٹائیگر بننے کی دھن سوار ہے۔ سرمائے کو راغب کرنے کے لئے بیرونِ ملک ڈھول پیٹا جارہا ہے۔ ملک کا علاقائی پروفائل بڑھانے کی تدبیریں ہورہی ہیں مگر جوہری دھماکے کے جواب میں جوہری دھماکہ بھی ہورہا ہے۔ ساتھ ہی عدلیہ سے بھی چھیڑ خانی چل رہی ہے تو ایوانِ صدر کو بھی بے چین رکھا جارہا ہے اور فوجی قیادت سے بھی پنگا لیا جارہا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ کون سی پالیسیاں غلط یا درست تھیں اور کون سی چال الٹی اور کونسی کوشش کیوں اور کس کے سبب گلے پڑ گئی۔پر ایک ایکٹیویٹی تھی ، ایک ہلچل سی تھی ، زندگی کا قدرے احساس تھا۔ایک تاثر سا بن رہا تھا کہ معاملات پر کچی پکی گرفت کے باوجود حکومت بدلے ہوئے عالم میں ریاست کے لئے کوئی مقام تلاش کرنے کے لئے ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے ۔
دو بار کے اس نامکمل پروفائل اور کارکردگی کے سبب امید یہی تھی کہ تیسرے دور کی حکومت میں بھی زندگی کی اچھی خاصی رمق ہوگی اور اب تو جلاوطنی اور سختیوں کے بیابان کی یاترا بھی ہو گئی ہے اس لئے پہلے سے زیادہ ذہنی پختگی اور عملی منصوبہ بندی کے ساتھ ریاست کا جہاز متلاطم پانیوں میں آگے بڑھانے کی کوشش ہوگی۔بھلے جہاز مختلف وجوہات و مفادات کے سبب زیادہ آگے نہ بھی جائے تب بھی کوشش ہوتی ضرور نظر آئے گی۔لیکن ہوا یہ کہ سیاسی بلوغت و برداشت تو آ گئی مگر ایکشن کہیں راستے میں ہی مسنگ ہوگیا۔اگر باقی بچا تو بس ری ایکشن اور وہ بھی زبانی ۔یا تو پہلے دو ادوار میں یہ حال تھا کہ وہاں بھی طاقت لگا دی جہاں اشارے سے کام چل سکتا تھا یا تیسرے دور میں یہ مزاج ہوگیا کہ جہاں ضروری اختیار دکھانے کی ضرورت تھی وہاں انگلی تک نہ ہلائی گئی ۔
حالانکہ ابھی شریف حکومت کی پانچ سالہ مدت کا ستر فیصد حصہ خرچ ہونا باقی ہے اور پہلے سال میں دنیا کی کسی حکومت کی اہلیت و نااہلیت کے بارے میں ایک حتمی نتیجے پر پہنچنا نری زیادتی اور بے انصافی ہے۔مگر اس کا کیا کریں کہ پوت کے پاؤں پہلا سال پورا ہونے سے پہلے ہی پالنے میں نظر آگئے اور پاؤں دیکھ کر اندازہ ہوگیا کہ شریف حکومت چلانے والے بزرجمہر نوے کے عشرے میں حاصل کی جانے والی کامیابیوں اور ناکامیوں کے ذہنی شکنجے سے باہر نہیں نکل پائے ۔حالانکہ بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کے بعد کے پندرہ برسوں میں پاکستان ، اس کے مسائل، عوامی رجحانات اور زاویہِ نظر نائن الیون کے آسیبی سائے میں رہتے رہتے کہیں سے کہیں جا پہنچے ۔پاکستان کے اندر باہر کی دنیا اس قدر متغیر ہوگئی کہ نوے کے عشرے میں جو سانپ تھا اب رسی ہے اور جو رسی تھی اب اژدھا بن چکا ہے ۔
نوے میں لوگ لیپ ٹاپ لے کر خوش ہوجاتے تھے اب انہیں بجلی پہلے چاہیے جس پر لیپ ٹاپ اور موبائل چارج کر سکیں۔ نوے میں لوگ سوچتے تھے کہ ٹوٹی پھوٹی جمہوریت بھی سالم آمریت سے بہتر ہے ۔اب لوگ دیکھتے ہیں کہ جمہوریت یا آمریت کے لیبل کے پیچھے کیا مال بیچنے کی کوشش ہورہی ہے۔ نوے کے عشرے میں دو چار ہی سہی مگر کچھ ادارے اور شخصیات مقدس گائے ہوا کرتے تھے ۔لیکن جب سے ( ننانوے کے بعد ) بدتمیز میڈیا ریاست کی شیشہ فیکٹری میں کُھروں سمیت گُھس کے منہ ماری کر رہا ہے تب سے مقدس گائیں بھی اینکریائی سینگوں سے بچنے کے لئے سائیڈ پر ہونے لگی ہیں۔نوے کے عشرے میں لوگ ادھار پر بھی وعدوں کی فصل اٹھا لیتے تھے ۔آج کوئی بھی کسی کا بھی وعدہ بنا نقد اٹھانے کو آمادہ نہیں۔
نوے کے عشرے میں منتخب ایم این اے ، ایم پی اے اور پارٹی عہدیدار قائد کی دور دور سے زیارت کر کے شیر آیا شیر آیا کے نعرے لگاتے گھروں کو شاداں لوٹ جاتے تھے ۔آج وہ زیرِ لب کہتے پھرتے ہیں کہ دو چار کل وقتی گھیرے داروں کو چھوڑ کے جب تک باقی حضرات اپنا تعارف نہ کروائیں تب تک قائد کو یاد ہی نہیں آتا کہ میں کون تے توں کون ؟ 
ان حالات میں ضرورت ہے ایک ایسی حکومت کی جو گینڈے کی طرح ایک ہی سمت میں نہ چلے بلکہ گھوڑے کی طرح طاقتور اور دلکی ہو۔ایسی حکومت جو سبز باغ کی صرف ڈرائنگز نہ بنائے بلکہ یہ بھی دکھائے کہ سبز باغ کہاں تعمیر ہو رہا ہے ۔ایسی حکومت جسے معلوم ہو کہ جمہوری شرافت اور ریاستی قوت کو کس تناسب سے آپس میں ملایا جائے کہ جمہوری لیبارٹری بھک سے اڑے بغیر گڈ گورننس کے لئے ضروری کیمیکل تیار ہوسکے اور پھر اس کیمیکل کے ڈرم آڑے وقت کے انتظار میں کسی گودام میں نہ رکھ چھوڑے جائیں بلکہ جہاں جہاں ضرورت ہے وہاں وہاں فوری طور سے بھجوائے جائیں۔
لیکن ایک ایسی حکومت جواچھی خاصی پارلیمانی اکثریت اور نرم خو حزبِ اختلاف کے ہوتے ہوئے بھی پیالے بھر بھر ستو چڑھانے میں لگی ہو۔جو بے یقینی کی فل ہیڈ لائٹس کے سامنے ساکت ہرن لگ رہی ہو اور جس کے انتظامی چہرے بس بتیا رہے ہوں ، دانشورانہ جگالی کررہے ہوں اور یوں ہوگا تو یوں ہوجائے گا اور ووں ہوگا تو یوں ہوگا کے زائچے ہوا میں انگلی کی مدد سے ایک ہی جگہ بیٹھے بیٹھے بنا رہے ہوں ۔ ایسے میں کمالو وٹہ نہ یاد آئے تو کیا یاد آئے؟ 
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لئے bbcurdu.comلئے پر کلک کیجئے )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں