خواہ مخواہ کی کچھ کہانیاں

صدر بارک اوباما اپنی اہلیہ مشل کے ہمراہ گذشتہ ماہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لئے نیویارک میں تھے ۔ایک شام سرکاری کھانوں سے اکتائے ہوئے دونوں میاں بیوی اقوامِ متحدہ کے ہیڈ کوارٹر کے قریب ایک مہنگے سے ریسٹورنٹ ایسٹیلا میں ڈنر کرنے چلے گئے اور بل کی ادائیگی کے لئے اوباما نے اپنا کریڈٹ کارڈ ویٹر کو دیا ۔پانچ منٹ بعد ویٹر کارڈ لئے لوٹا کہ مشین نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا ہے ۔ ہکا بکا اوباما نے کہا مگر میں تو باقاعدگی سے کریڈٹ کارڈ بل ادا کرتا ہوں، کم ازکم اتنے پیسے تو اکاؤنٹ میں ہونے ہی چاہئیں جتنے کا میں نے ابھی کھانا کھایا ہے ۔( بات درست بھی تھی کیونکہ اوباما خاندان نہ صرف ساٹھ لاکھ ڈالر کے اثاثوں کا مالک ہے بلکہ بحیثیت صدر ان کی سالانہ تنخواہ چار لاکھ ڈالر ہے اور ٹیکس سے مستثنیٰ پچاس ہزار ڈالر کی سالانہ اضافی رقم بھی متفرق اخراجات کے لئے ریاست کی جانب سے ادا کی جاتی ہے )۔
مگرویٹر ریسٹورنٹ کے منیجر کو لے کر آیا اور اس نے وضاحت کی کہ اگر آپ اپنا کریڈٹ کارڈ بہت کم اور کبھی کبھی استعمال کریں تو مشین اسے کبھی کبھی بلاک کردیتی ہے ۔اس موقع پر مشل نے اپنے پرس سے اپنا کریڈٹ کارڈ نکالا اور یوں اس ڈنر کا بل ادا ہوا۔
برطانیہ کے موجودہ وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون جب ملکہ سے اپنے عہدے کا حلف لینے دو سرکاری کاروں اور ایک پولیس محافظ گاڑی کے جلوس میں روانہ ہوئے تو ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ سے بکنگھم پیلس کے درمیان دو ٹریفک سگنلز لال ہونے کے سبب ان کے قافلے کو رکنا پڑا ۔یوں تقریبِ حلف وفاداری میں دس منٹ کی تاخیر ہوگئی اور انہیں شرکاء سے معذرت کرنی پڑی۔وزیرِ اعظم بننے کے کچھ عرصے بعد ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران کیمرہ مین بار بار ڈیوڈ کیمرون کی ایڑی کو بھی شوٹ کرتا رہا کیونکہ وزیرِ اعظم کے موزے میں ایک نمایاں سوراخ تھا۔یہ تصاویر جب شائع ہوئیں تو ڈیوڈ کیمرون نے ہنستے ہوئے وضاحت کی کہ میری اہلیہ کی وضع قطع کے بارے میں آپ کبھی ایسی شکایت نہیں سنیں گے ۔مجھے چونکہ اکثر صبح جلدی تیار ہونا پڑتا ہے اس لئے موزہ پہنتے ہوئے خیال نہیں رہا ہوگا۔ایسا تو کسی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے ۔
اسپین کے شہری شاہ ہوان کارلوس کے احسان مند رہیں گے جنہوں نے 1975ء میں جنرل فرانکو کی تینتیس سالہ آمریت سے جان چھڑوا کے جمہوریت بحال کروائی۔ جنوری 2012ء میں شاہ ہوان کارلوس کے چھوٹے داماد ڈیوک آف پالما سے پولیس نے کڑی پوچھ تاچھ کی اور مالی غبن میں شرکت کی فردِ جرم کاٹ دی ۔
ہوا یوں کہ ڈیوک آف پالما چھ برس کھیلوں اور ثقافتی سرگرمیوں کے فروغ کے ایک خیراتی ادارے نوس انسٹی ٹیوٹ کے اعزازی سربراہ رہے ۔اس دوران وہاں تقریباً چھ ملین یورو کا غبن ہوا۔ڈیوک آف پالما نے عدالت کے روبرو صحتِ جرم سے تو انکار کیا البتہ یہ ضرور اعتراف کیا کہ جب ادارے میں گڑ بڑ کی اطلاعات ان کے سسر شاہ کارلوس تک پہنچیں تو انہوں نے مجھے تمام کاروباری سرگرمیاں فوری ترک کرنے اور ادارے سے مستعفی ہونے کا مشورہ دیا جس پر میں نے تاخیر سے عمل کیا۔اس اعتراف کے شائع ہونے کے بعد مظاہرین عدالت کے سامنے پلے کارڈ لے کے پہنچ گئے جن پر لکھا تھا بادشاہ سلامت جب تمہیں داماد کے کرتوت پتہ چلے ،تم خاموش کیوں رہے ؟
2012ء میں ہی سپین شدید اقتصادی بحران اور ریکارڈ بے روزگاری کی گرفت میں تھا۔اس دوران یہ خبر شائع ہوگئی کہ شاہ ہوان کارلوس نجی طور پر افریقی ملک بوٹسوانا میں ایک ہفتے تک ہاتھیوں کا شکار کرتے رہے اور جب وہ شکار کے دوران گر کے زخمی ہوگئے تب وطن واپس آئے ۔اس شکاری دورے پر سفری اخراجات کے علاوہ لگ بھگ پچیس ہزار ڈالر کا خرچہ آیا۔یہ خبر پھیلتے ہی مظاہرین شاہی محل کے سامنے پلے کارڈز لے کر کھڑے ہوگئے کہ رعایا بے روزگاری جھیل رہی ہے اور بادشاہ ہاتھیوں کا شکار کھیل رہا ہے ۔
اس دوران بادشاہ کو یہ خبر ملی کہ ان کے تیرہ سالہ پوتے فرولان مارخر نے مقامی شکار کے دوران اپنے ہی کارتوس کے چھروں سے پاؤں زخمی کرلیا ۔رعایا میں شہزادے سے ہمدردی کے بجائے یہ بحث چھڑ گئی کہ جب اٹھارہ برس کی عمر تک پہنچنے سے پہلے شکار پر پابندی ہے تو بادشاہ کے پوتے نے قانون کیوں توڑا۔
اگرچہ شاہی خاندان کے خلاف لوگوں کا غصہ کچھ عرصے بعد ٹھنڈا ہوگیا مگر شاہ ہوان کارلوس نے اس سال جون میں چوالیس برس بادشاہ رہنے کے بعد ازخود فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بیٹے کے حق میں دستبردار ہورہے ہیں اور آرام کرنا چاہتے ہیں۔میڈیا نے جمہوریت کے لئے شاہ کارلوس کی سنہری خدمات کا بھرپور تذکرہ کیا اور پھر انہوں نے اپنی سبکدوشی کے حکم نامے پر شاہی تقریب میں دستخط کردئیے ۔
آپ نے شاید جنوبی امریکہ کے ایک متوسط ملک یوروگوئے کے موجودہ صدر ہوزے موچیکا کا تذکرہ سنا ہو جنہیں دنیا کے سب سے غریب حکمران کا لقب مل چکا ہے ۔ صدر موچیکا ایک کسان ہیں۔طویل فوجی آمریت کے دور میں وہ ایک کسان گوریلا تنظیم میں شامل ہوگئے جس کا کام بینک اور غذائی گودام لوٹ کر مالِ غنیمت غریبوں میں تقسیم کرنا تھا۔انہوں نے چودہ سال قیدِ بامشقت ایک فوجی جیل میں کاٹی۔اس دوران دو برس ایک کنوئیں میں رکھا گیا جہاں ہوزے موچیکا مینڈکوں سے باتیں کرتے رہتے تاکہ قیدِ تنہائی ان کے دماغ پر اثر انداز نہ ہوجائے ۔ 1985ء میں یوروگوئے
میں جمہوریت بحال ہوئی ۔ 1994ء میں ہوزے موچیکا رکنِ پارلیمان منتخب ہوئے اور جب افتتاحی اجلاس میں شرکت کے لئے اپنے ویسپا سکوٹر پر پارلیمنٹ پہنچے تو پارکنگ گارڈ نے پوچھا کہ کیا آپ یہاں طویل وقت کے لئے پارکنگ کریں گے ۔ ہوزے موچیکا نے جواب دیا ،ارادہ تو یہی ہے ۔
2010ء میں ہوزے موچیکا یوروگوئے کے صدر منتخب ہوگئے ۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ دارالحکومت مونٹی وڈیو کے قریب اپنے دیہی گھر میں ہی رہیں گے اور سن تہتر ماڈل کی فوکسی میں ہی دفتر آئیں جائیں گے کیونکہ صدارتی محل انہیں پرائی جگہ محسوس ہوتی ہے، مگر صدارتی محل خالی چھوڑنے کے بجائے ان بے گھروں کے لئے کھول دیا گیا جن کے پاس سر جھکانے کی جگہ نہیں تھی۔
صدر ہوزے موچیکا نے دو محافظ اور ایک کتا رکھا ہوا ہے جو گلی کے نکڑ پر پہرہ دیتے ہیں۔تنخواہ میں سے آٹے دال، دو جوڑے کپڑوں اور تیس پیکٹ سگریٹ خریدنے کے بعد جو رقم بچ جاتی ہے ،وہ خیراتی اداروں کو دے دیتے ہیں۔بیوی چونکہ خود سکول ٹیچر ہیں لہٰذا انہیں شوہر کی مالی محتاجی نہیں ہے ۔صدر موچیکا کا گھر بھی چل رہا ہے اور یورو گوئے بھی چل رہا ہے ۔ایک یورپی صحافی نے حالیہ انٹرویو میں پوچھا کہ کیا وہ دنیا کے غریب ترین صدر کے خطاب پر خوش ہیں۔صدر موچیکا نے کہا مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ تم لوگ مجھے غریب کیوں کہتے ہو۔میری تو تمام ضرورتیں پوری ہورہی ہیں ۔ غریب تو وہ ہوتا ہے جس کی ضرورتیں پوری ہی نہ ہوں ۔
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجئے )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں