کچھ اور خواہ مخواہ کی کہانیاں

کسی صاحب نے گزشتہ کالم خواہ مخواہ کی کہانیاں پڑھنے کے بعد توقع کے عین مطابق ای میل بھیجی کہ آپ نے سادگی و راستی کی جو بھی مثالیں دیں وہ سب کی سب غیر مسلم ہیں ۔کیا مسلمانوں میں سے کوئی مثال نہیں ملی۔اگر یہ صاحب ذرا صبر کر لیتے تو شاید انہیں یہ ای میل بھیجنے کی زحمت نہ کرنی پڑتی۔گو میں ذاتی طور پر سچ اور جھوٹ ، سادگی اور اسراف ، اخلاق و بداخلاقی وغیرہ کو مسلم اور غیر مسلم پیمانے سے تولنے کا عادی نہیں ۔کیونکہ مذکورہ اوصاف سے کوئی مذہب ، کوئی نسل ، کوئی خطہ خالی نہیں؛ تاہم جو حضرات مذہبی و نسلی عینک سے ہی دنیا کو دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں ان کے لئے میں دورِ رسالتؐ و خلفائے راشدینؓ و اہلِ بیتؓ و صحابہِ کرامؓ کی سادگی و سچائی کی ان گنت مثالیں پیش نہیں کروں گا ۔کیونکہ یہ مثالیں ہم سب نے بچپن سے بڑھاپے تک سینکڑوں بار پڑھی ، سنی ہیں اور ہر مثال پر سبحان اللہ کہتے ہوئے سر بھی بہت دھنا مگر ان پر عمل کرنے اور زندگی کا حصہ بنانے کی توفیق کم کم ہی نصیب ہوئی۔ لہذا عصرِ حاضر کی ہی کچھ مثالوں پر اکتفا کیا جائے تو بہتر ہے: 
پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی سرکاری رہائش گاہ کے روزمرہ انتظام کی نگرانی محترمہ فاطمہ جناح کرتی تھیں۔خانساماں و ڈرائیور سمیت تمام عملے کو سختی سے تاکید تھی کہ بنا پوچھے کوئی خریداری بلا رسید نہ کی جائے۔ پیسے بچ جائیں تو فوراً ہاؤس کیپنگ کے دفتر میں جمع کروائے جائیں اور کیپر بھی حساب رکھے کہ کس مد میں کتنے پیسے جاری کئے گئے اور ان میں سے کتنے سرکاری اور کتنے نجی اخراجات کی مد میں تھے ۔اس بارے میں معمولی غفلت کا مطلب فاطمہ جناح کی کڑی سرزنش کو دعوت دینا تھا۔
دوسرے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے سرکاری رہائش گاہ میں مرغیاں پال رکھی تھیں۔گورنر جنرل ہاؤس کا جو ملازم وقتاً فوقتاً ان مرغیوں کی دیکھ بھال اور دانے پانی پر مامور تھا اسے خواجہ صاحب اس اضافی کام کا معاوضہ اپنی جیب سے دیتے تھے ۔
پاکستان میں پہلا مارشل لا لگنے کے کچھ عرصے بعد لیفٹیننٹ جنرل اعظم خان کو مشرقی پاکستان کی فوجی کمان اور گورنری دے کر بھیجا گیا۔انہوں نے بنگال کی ترقی کے سلسلے میں اکثر شکایتی موڈ میں رہنے والی بنگالی اکثریت کا اعتماد جیتنے کے لئے جو اقدامات کئے سو کئے لیکن جب دو برس بعد 1962ء میں اچانک ایک دن راولپنڈی سے آنے والے سبکدوشی کے احکامات ان تک پہنچائے گئے تو جنرل اعظم خان نے فوراً التوا میں پڑے کاغذوں پر دستخط کر کے میز صاف کی۔درازوں میں موجود ذاتی چیزیں اپنے چرمی بیگ میں رکھیں اور سیکرٹری سے کہا ٹیکسی منگوا دو... ہکا بکا سیکرٹری نے کہا لیکن سر وہ آفیشل کار... جنرل اعظم نے بات کاٹتے ہوئے کہا میں جو کہہ رہا ہوں وہی کرو۔اور پھر ٹیکسی آگئی اور جنرل اعظم پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے اور پھر اچانک کوئی خیال آیا اور دوبارہ تیزی سے اپنے دفتر میں آگئے اور اپنے قلم کی سرکاری روشنائی سرکاری دوات میں نچوڑ کر پھر ٹیکسی میں آ بیٹھے۔۔چلو! 
جنرل اعظم خان مغربی پاکستان سے بھیجے گئے واحد گورنر تھے جنہیں بنگالیوں نے ایئرپورٹ جانے والے راستے پر دو رویہ کھڑے ہو کر تر آنکھوں سے الوداع کہا۔( ایسی دوسری مثال غوث بخش بزنجو کی ہے ۔جب انیس سو تہتر میں بلوچستان حکومت برطرف ہوئی تو گورنر بزنجو نے بریف کیس اٹھایا اور گورنر ہاؤس سے نجی گاڑی میں روانہ ہوگئے )۔
اور جس ایوب خان نے جنرل اعظم خان کو سبکدوش کیا ان کی ڈائریوں میں انیس سو چھیاسٹھ کے بعد کے ایک دن کا اندراج کچھ یوں ملتا ہے ۔
آج شام نسیم ( بیٹی ) اور اورنگ زیب ( داماد ) کئی دن بیرونِ ملک گزار کے ملنے آئے ۔ہم تینوں نے لان میں بیٹھ کر چائے پی اور بہت اچھا وقت گزرا۔ چائے کے برتن اٹھانے والا ملازم بل بھی پلیٹ میں رکھ کے لایا۔اورنگ زیب نے اس سے بل چھیننے کی کوشش کی مگر میں نے منع کیا اور بل لے کر دستخط کردئیے ۔میں نے اورنگ زیب کو بتایا کہ ایوانِ صدر کے عملے کو سختی سے ہدایات ہیں کہ نجی ملاقاتوں کے اخراجات کو سرکاری کھاتے سے الگ رکھا جائے اور انہیں تنخواہ سے منہا کرلیا جائے ۔
ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں آپ کے جو بھی خیالات ہوں مگر بحیثیت وزیرِاعظم ان کی سرکاری تنخواہ ایک روپیہ تھی۔ایک روپیہ بھی یوں کہ تمام آئینی و سرکاری عہدے دار تنخواہ لینے کے پابند ہیں۔پروفیسر غفور احمد مجھ سے ہمیشہ شفقت فرماتے تھے۔ ایک روز پی این اے کی تحریک پر بات ہوتے ہوتے میں نے اچانک درمیان میں پوچھ لیا کہ کیا بھٹو مالی لحاظ سے کرپٹ تھا؟ غفور صاحب چند لمحوں کی خاموشی کے بعد بولے نہیں۔ میرے علم میں بھٹو کی مالی کرپشن کا کوئی واقعہ نہیں ۔اگر ایسا ہوتا تو ضیا الحق نے جو اتنے موٹے موٹے وائٹ پیپر چھاپے ان میں ضرور ہوتا۔
بھٹو کے فوجی جانشین ضیا الحق نے ایک دن سائیکل چلا کر سادگی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی اور روزانہ دفتر سائیکل پر جانے کا عزم بھی ظاہر کیا ۔لیکن پھر سائیکل غائب ہوگئی اور عزم تنہا رہ گیا۔ ضیا کے وزیرِاعظم محمد خان جونیجو واقعی سادہ طبیعت تھے۔ اسی سادگی میں انہوں نے خود بھی سرکاری آمدورفت کے لئے لمبی، چمکدار، قیمتی لیموزینوں کے بجائے سوزوکی آٹھ سو سی سی کے استعمال کا تجربہ کیا اور جرنیلوں کو بھی سوزوکی میں بٹھانے کا اعلان کیا مگر چند روز بعد جرنیلوں نے اسی سوزوکی میں انہیں گھر بھجوا دیا۔اس کے بعد سے میرے علم میں تو نہیں کہ کسی حکمران نے سادگی، کفایت شعاری یا وی آئی پی کلچر کو کم کرنے کے لئے کوئی نیم دلانہ مظاہرہ بھی کیا ہو۔
بات یہ ہے کہ سادگی یا تو اپنے اندر ہوتی ہے یا نہیں ہوتی۔ایسے کاموں میں تا دیر اداکاری نہیں چل سکتی ورنہ سادگی بھی سیلابی پانی میں کھڑے ہو کر فوٹو کھنچوانے، پناہ گزین کیمپوں میں زمین پر بیٹھ کر مصیت زدگان کے ساتھ دو علامتی لقمے توڑنے ، عید بقر عید پر منتخب نہائے دھوئے عام آدمیوں کو گلے لگانے ، کسی بیمار بچے یا بیوہ کا اپنی جیب سے علاج کروانے یا ہفتہِ صفائی کا افتتاح کرتے ہوئے ایک مربع فٹ جھاڑو لگانے کے روایتی فارمولے‘ فلمی مظاہرے میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔سادگی و غیر نمائشی زندگی بسر کرنے کے لئے گاندھی جی کی طرح اپنے گھر کا ٹائلٹ خود صاف کرنے یا ہوچی منہہ کی طرح تاحیات دو جوڑے کپڑوں میں گزارنے اور خود دھو کر سکھانے کی ضرورت نہیں۔خوش پوشی برقرار رکھتے ہوئے بھی آدمی پھوں پھاں اور شپ شپا سے پاک عجز و حرمت کے ساتھ گزارا کرسکتا ہے ۔بس اندر کا چھچھورپن مارنا پڑتا ہے ۔بقول عزیز حامد مدنی ؎ 
تیرے خوش پوش فقیروں سے وہ ملتے تو سہی
جو یہ کہتے ہیں وفا پیرہنِ چاک میں ہے 
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجئے) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں