مسئلہ کشمیر کا مسئلہ

کشمیر کے بارے میں پاکستانی کتنے سنجیدہ ہیں اس کا ایک مظاہرہ تو آپ نے ٹی وی سکرینز پر اتوار کو دیکھ لیا جب بھارتی قبضے کی سڑسٹھویں برسی کے موقع پر لندن کے ملین مارچ میں شریک چند ہزار لوگوں میں سے کچھ نے ہلڑ بازی کرکے بلاول بھٹو کو تقریر کرنے نہیں دی کہ جس کے ناناذوالفقار علی بھٹو نے ہر سال پانچ جنوری کو یومِ کشمیر منانے کی روایت ڈالی تھی۔کئی پاکستانی چینل اسے بھارتی ایجنٹوں کی ہنگامہ آرائی کا رنگ دینے کی کوشش کرتے رہے مگر یہ کیسے بھارتی ایجنٹ تھے جو پاکستان مخالف نعرے لگانے کے بجائے کولڈ ڈرنک کے خالی کین اور پلاسٹک بوتلیں اسٹیج کی طرف اچھالتے جوتے لہراتے گو بلاول گو ، گو نواز گو کے نعرے لگا رہے تھے ۔ یہ سب یوں ہوا کہ دھڑے بند کشمیریوں نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور اپنے اپنے بندے کا قد بڑھانے کو اصل مقصد پر مقدم جانا اور ریلی جس سنجیدگی کی متقاضی تھی وہ مخولیت میں بدل گئی۔
آج تک کوئی پاکستانی حکومت یہ نہیں طے کر پائی کہ کشمیر ایک انسانی مسئلہ ہے یا جغرافیائی مسئلہ ، صرف سیاسی مسئلہ یا دو ممالک کی ناک کا مسئلہ ۔دو طرفہ ہے کہ سہ طرفہ ۔اسی کنفیوژن کے سبب کبھی کشمیریوں کو اعتماد میں لئے بغیر پروکسی جنگیں لڑ ی جاتی ہیں،کبھی بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں عالمی فورمز پر مسئلہ اٹھانے کی کوششیں ہوتی ہیں،کبھی دو طرفہ انداز میں حل کرنے کا اصول تسلیم کر لیاجاتا ہے تو کبھی مسئلے کا غیر روایتی حل نکالنے کا فارمولا پیش ہوجاتا ہے اور جب کچھ نہیں ہوپاتا تو اقوامِ متحدہ کی پینسٹھ برس پرانی قرار دادوں پر حرف بحرف عمل درآمد کرانے پر زور دینے کا عمل دوبارہ شروع ہوجاتا ہے ۔ایک سال جوش میں آ کر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں کوئی سربراہِ حکومت یہ مسئلہ اٹھاتا ہے تو اگلی چار سالانہ تقریروں میں کشمیر کا ''ک ‘‘بھی شامل نہیں ہوتا۔
پاکستان کی درسی کتابوں میں کشمیر سے متعلق سلامتی کونسل کی قرار دادوں کا تذکرہ تو ہے مگر کوئی یہ نہیں بتاتا کہ یہ قرار دادیں دانستہ یا حسن ِ اتفاق سے اقوامِ متحدہ کے جس آئینی باب کے تحت منظور ہوئیں اس میں متحارب فریقوں سے مسئلے کے رضاکارانہ حل کی تو اپیل کی جاتی ہے لیکن عدم تعمیل کی صورت میں اقوامِ متحدہ اپنی قوتِ نافذہ استعمال نہیں کر سکتی ۔جبکہ جنگِ کوریا ، جنوبی افریقہ کی نسل پرستی اور صدام حسین کے عراق کے لئے اقوامِ متحدہ کی قرار دادیں جس باب کے تحت منظور کی گئیں ان کی حکم عدولی پر تادیبی قوت استعمال ہو سکتی ہے ۔
چلئے مان لیا مغرب کے اپنے مفادات ہیں اور وہ بھارتی منڈی کو کسی صورت ناراض کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔مگر یہ فرمائیے کہ جن مسلمان ممالک کا آپ دن رات دم بھرتے ہیں ان میں سے کتنوں کی زبان پر آپ نے کشمیر کا لفظ پایا ؟ ہاں شاہ کا ایران پاکستان کے کشمیری موقف کا حمایتی تھا مگر انقلابی ایران نے کتنی بار کشمیر کی بات کی۔افغانستان کے لئے آپ نے خود کو ہر طرح ہلاک کرلیا مگر کس افغان حکومت نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کو سنجیدگی سے سنا۔شاہ فیصل کے زمانے تک تو مسئلہ کشمیر سعودی ریڈار پر تھا اس کے بعد فرمائیے کتنے سعودی فرمانرواؤں نے بات کی۔سوئیکارنو کا انڈونیشیا پاکستانی موقف کا حامی تھا مگر سہارتو کا انڈونیشیا ؟ پاکستان کا گہرا دوست ترکی اس تناظر میں کہاں کھڑا ہے ۔ فلسطین پاکستانیوں کا ہمیشہ سے جذباتی مسئلہ رہا ہے لیکن یاسر عرفات سمیت کسی بھی فلسطینی کا کوئی ایک بیان مسئلہ کشمیر پر ؟ ماؤزے تنگ اور چو این لائی کے چین کا کشمیر پر وہی موقف تھا جو پاکستان کا روائتی موقف ہے مگر آج ہمالہ سے بلند اور سمندروں سے گہرے دوست کی کشمیر پالیسی کے بارے میں بھی تو کچھ بتائیے ۔
ڈوگرہ کشمیر میں شامل گلگت بلتستان کو 1947ء کے خزاں میں پاکستانی قبائلیوں نے نہیں ،مقامی باشندوں نے اپنے زورِ بازو پر آزاد کرایا ۔پندرہ دن تک کرنل حسن اور ان کے ساتھی دارالحکومت کراچی کو ایس او ایس بھیجتے رہے ،تب جا کے ایک بیورو کریٹ آزاد علاقے کا انتظام سنبھالنے گلگت پہنچا اور آتے ہی فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز ( ایف سی آر ) کا گلگت بلتستانی ایڈیشن نافذ کردیا ۔یہ علاقہ آج تک اپنی پاکستان پرستی کے باوجود سیاسی حقوق کے اعتبار سے معلق ہے ۔جب کوئی گلگتی ایورسٹ یا کے ٹو سر کرتا ہے تو فخرِ پاکستان ہوجاتا ہے اور جب پاکستان کے دیگر صوبوں کے ہم پلہ اختیارات دینے کا مطالبہ کرتا ہے تو کہا جاتا ہے چپ بیٹھو تمہاری حیثیت ابھی متنازعہ ہے ۔اور پھر وہ چپ بیٹھ جاتا ہے اور اس متنازعہ علاقے سے گذرنے والی شاہراہ ریشم تکتا رہتا ہے ۔
جب کشمیر کا زخم تازہ تازہ تھا تو کے ایچ خورشید جیسے سرکردہ کشمیری رہنماؤں نے پاکستانی حکومت کو مشورہ دیا کہ اگر آزاد علاقے کو محض لبریشن بیس کیمپ بنانے کے بجائے مظفر آباد میں کشمیریوں کی اسی طرح حکومت قائم ہو جائے جس طرح دوسری جنگِ عظیم کے دوران ڈیگال نے لندن میں فرانس کی جلا وطن حکومت قائم کی تھی اور عالمی رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے اسی حکومت کو آگے رکھا جائے اور امتِ مسلمہ پر بالخصوص اس حکومت کو تسلیم کرنے کے لئے زور لگایا جائے تو مسئلے کے حل کے لئے سیاسی و اخلاقی عالمی دباؤ برقرار رہے گا۔مگر یہ نکتہ دارالحکومت کراچی میں بیٹھے لال بھجکڑ دفتری بابوؤں کے پلے نہیں پڑا ۔ انہوں نے آزاد جموں و کشمیر ریاست کے لئے گورنر کے بجائے صدر اور وزیرِ اعلی کے بجائے وزیرِ اعظم کی اصطلاحات تو منظور فرما لیں مگر اختیارات کا عالم یہ رہا کہ دونوں معزز عہدیدار وفاقی وائسرائے عرف چیف سیکرٹری کے روبرو اف نہیں کہہ سکتے تھے ۔ 70ء کے عشرے تک یہ حالت تھی کہ جب وزارتِ امورِ کشمیر کا جوائنٹ سیکرٹری مظفر آباد کا قصد کرتا تو کوہالہ کے پل پر آزاد کشمیر کا وزیرِ اعظم حضورِ والا کا استقبال کرتا۔
یہ تو خیر ایک نظیر ہی ہو گئی کہ پنڈی اسلام آباد چھینکے گا تو مظفر آباد کی بھی ناک بہے گی۔پاکستان میں مارشل لا لگے گا تو کشمیر پر بھی عملی اطلاق ہوگا۔اسلام آباد میں جو بھی سیاسی و غیر سیاسی حکومت آئے گی ،کچھ عرصے بعد مظفر آباد میں بھی ان ہاؤس تبدیلی کے نتیجے میں اسلام آباد ہی کا کوئی حمایت یافتہ وزیرِ اعظم ہوگا۔اب کہیں جا کے اس وفاقی جنون میں کچھ کمی آئی ہے ۔مگر عملی نظام چونکہ پاکستانی بیورو کریسی کے ہی ہاتھ میں ہے لہٰذا کشمیر کے منتخب علامتی نمائندے اور وزرا ء بھی مظفر آباد میں ٹکنے کے بجائے اسلام آباد اور پنڈی میں رہنا پسند کرتے ہیں ،الاّ یہ کہ ریاستی اسمبلی کا مظفر آباد میں اجلاس ہو یا پاکستان کا کوئی اعلیٰ عہدیدار مظفر آباد کے دورے پر جارہا ہو۔رہی پاکستان کی وفاقی کشمیر کونسل اور قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی کی مجموعی اللانہ تللانہ کارکردگی اور طریقِ کار ،اس بارے میں عرض کروں تو شاید انصاف نہ ہو پائے ،لہٰذا پھر کسی وقت ۔
میں ان چند خوش قسمتوں میں سے ہوں جنہیں سری نگر اور گرد و نواح دیکھنا اور مقامیوں سے ملنا نصیب ہوا ۔آج بھی سری نگر ، گلمرگ ، بارہ مولا ، اننت ناگ اور پام پور میں کئی بزرگ کشمیر بنے گا پاکستان کہتے پائے جاتے ہیں۔مگر سڑسٹھ برس کی علاقائی شطرنج نے بیشتر پیروں کو استاد کردیا ہے ۔2009ء کے ریاستی انتخابات کے دوران بارہ مولا میں ایک پولنگ سٹیشن کے باہر لگی ووٹروں کی قطار میں ویل چیئرپر بیٹھے بزرگ سے میں نے پوچھا ، آپ بھی ؟ فرمایا ،آزادی تو جب ملے گی تب ملے گی مگر اپنے لئے سڑک ، پانی ، بجلی اور بچوں کے لئے اسکول اور روزگار ابھی چاہیے ۔
سری نگر یونیورسٹی کی نوجوان نسل سے جب مسئلہ ِ کشمیر چھڑاتو خلاصہ یہ تھا کہ آپ کشمیر کی فکر نہ کریں پہلے خود کو سنبھال لیں۔ہماری نسل کا خواب وہ کشمیر ہے جس کو بھارت اور پاکستان اپنے حال پر چھوڑ دیں ۔مسئلہ کشمیر کو مسئلے کی طرح دیکھیں ،انڈسٹری نہ سمجھیں۔
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لئے bbcurdu.com پر کلک کیجئے )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں