اگر میں اس دنیا کے نڈر لوگوں کی فہرست مرتب کروں تو اس میں پہلا نام کسی سگریٹ نوش کا رکھوں گا۔انسان ارادہ کرے تو ہر علت قوتِ ارادی کی مدد سے ترک کرسکتا ہے علاوہ سگریٹ نوشی ۔ اسے ترک کرنا اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کی بات نہیں والا معاملہ ہے ۔ابنِ انشا کے بقول مسلمان اس قدر نڈر ہوتا ہے کہ اللہ سے بھی نہیں ڈرتا۔ مگر تمباکو نوش تو اس قدر نڈر ہے کہ موت جس سے ہر کوئی ڈرتا ہے ،اسے روزانہ قسط وار پیسے دے کر خریدتا ہے اور پھر اس قسط وار موت میں ابدی سکون کی جانب لے جانے والا عارضی سکون تلاش کرتا ہے ۔( آصف علی زرداری نے کسی سگریٹ نوش کا یہ مقولہ کس صفائی سے اپنے نام کرلیا ہے کہ موت ہمیں کیا ڈرائے گی ۔ہم وہ ہیں جو خود موت کی تلاش میں ہیں)۔
شک ہو تو کسی بھی سگریٹ نوش پر اپنا فنِ منطق آزما کر دیکھیں۔اسے چیخ چیخ کے بتائیں کہ تمباکو نوشوں کو پھیپھڑوں کے سرطان کا خطرہ تمباکو نہ پینے والوں کے مقابلے میں نوے فیصد زائد ہے اور صرف پاکستان میں ہر سال ساڑھے تین لاکھ افراد پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور ان میں سے تقریباً ایک لاکھ مرجاتے ہیں کیونکہ غربت کے سبب عارضی علاج بھی افورڈ نہیں کرسکتے ۔اسے سمجھائیں کہ ایک ایسے پاکستان میں جہاں ایک سو اسی ملین میں سے ایک سو دس ملین آبادی ناکافی غذائیت اور غذائی عدم تحفظ میں مبتلا ہے وہاں ہر سال تمباکو نوش ڈھائی کھرب روپے کی چونسٹھ ارب سگریٹیں اپنے جسم میں دھواں بنا کے اتار لیتے ہیں ۔اس کا کندھا زور زور سے ہلائیں کہ تمباکو سے زیادہ سگریٹ کا کاغذ اور فلٹر خطرناک ہے اور یہ دونوں تمباکو کے ساتھ مل کر جسم میں چند زہریلے کیمیکلز بناتے ہیں۔اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں کہ تمباکو نوشی شریانیں سکیڑ دیتی ہے چنانچہ دل کی بیماریوں کا امکان دیگر علت زدگان کے مقابلے میں پچاس فیصد زیادہ ہو جاتا ہے ۔اسے بتائیں کہ مارکیٹ سستی ، جعلی اور دو نمبر سگریٹوں سے بھری پڑی ہے جو برانڈڈ سگریٹ سے دوگنی خطرناک ہیں۔اسے پراسرار لہجہ میں کہیں کہ کسی چھوٹے سے فلیٹ یا بغیر دالان کے گھر میں ایک سگریٹ نوش کی موجودگی کم عمر بچوں کی صحت کے لئے کس قدر تباہ کن ہے کہ ان معصوموں کا جسم مسلسل اتنی دھواں دار کثافت برداشت کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ کوئی بھی سگریٹ نوش یہ تمام دھمکیاں اور چیتاونیاں سن کر خوفزدہ ہو جاتا ہے ؟ بہت ہوا تو چند لمحوں کے لئے پریشان اور نادم ہو جائے گا مگر اس کش مکش سے باہر نکلنے کے لئے پھر سگریٹ سلگا لے گا اور آئندہ آپ جیسے زاہد خشک سے بھی کنی کترائے گا ۔
ایسا نہیں کہ وہ اس عادت سے چھٹکارا نہیں پانا چاہتا۔ہر سگریٹ نوش زندگی میں کم ازکم پانچ بار سگریٹ ترک کرنے کی کوشش ضرور کرتا ہے لیکن پھر اس کا کوئی سجن یا وہ خود یہ کہہ کر اپنے کو تسلی دے لیتا ہے کہ انسان تو ویسے بھی خطا کا پتلا ہے سگریٹ نہ پئے گا تو کچھ اور پئے گا ۔اس سے تو اچھا ہے سگریٹ ہی پیتا رہے ۔آخر سگریٹ نہ پینے والے کتنے لوگ سو سال کے ہو کر مرتے ہیں ؟ جو نہیں پیتے انہوں نے اپنی اس بچت سے کتنی جائدادیں بنا لیں ؟ کوالٹی آف لائف ؟ کونسی کوالٹی آف لائف ؟ کیا سگریٹ نہ پینے والے ملاوٹ زدہ چیزیں کھا کے اور بسوں ، رکشوں اور صنعتوں کا دھواں پی کر نہیں مرتے ؟ ویسے بھی بے عیب ذات خدا کو سجتی ہے ۔ ہم تو اس کی رحمت کے آسرا مند خطا وار ہیں وغیرہ وغیرہ ...
آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ میں مصلح بننے کی کوشش کررہا ہوں ۔ ہرگز ہرگز نہیں۔میری عمر اس وقت باون برس ہے جس میں سے اٹھائیس برس روزانہ بیس سے تیس سگریٹیں برانڈ بدلے بغیر پی ہیں ۔کئی بار یہاں تک قلق ہوتا تھا کہ آخر آدمی سوتے میں سگریٹ کیوں نہیں پی سکتا ؟ کیا میری بیوی ، کیا بچے ، کیا بزرگ ، کیا جاننے والے ، جب سب نے ہی میری سگریٹ نوشی ترک کروانے کے اپنے ہی جہاد باللسان کے ہاتھوں ہار مان لی تب میں نے بھی سگریٹ چھوڑ دی ۔چھوڑ کیا دی چُھٹ گئی ۔
ہوا یوں کہ ہر تمباکو نوش کی طرح مجھے بھی ہر موسمِ سرما میں سینے کی تکلیف اور کتا کھانسی ( وہ کیفیت جس میں حلق سے کھوں کھوں کے بجائے بھوں بھوں کی آواز نکلتی ہے ) کے شدید دوروں سے گزرنا پڑتا۔ایسی حالت میں منہ بے ذائقہ ہونے کے سبب نکوٹین کی ضرورت معطل ہوجاتی ہے ۔یہ کیفیت ایک سے دو ہفتے برقرار رہتی ہے ۔جیسے ہی طبیعت بحالی کی طرف مائل ہوتی ہے تو جسم پھر سے نکوٹین کے لئے کشکول پھیلا دیتا ہے اور یوں تیسرے ہفتے تک سگریٹ نوش کے معمولات ِ زندگی معمول پر آجاتے ہیں۔
2009ء کے دسمبر میں جب مجھے سالانہ کتا کھانسی شروع ہوئی تو حسبِ معمول ذہنی طور پر اس تکلیف کے لئے تیار تھا۔دو ہفتے بعد جب جسم نے ہلکے سروں میں نکوٹین کا تقاضاشروع کیا تو میں نے اس سے کہا میری جان اتنے اتاؤلے کیوں ہورہے ہو ۔ہمارا تمہارا تو قبر تک ساتھ ہے ۔بس ایک ہفتہ اور گزر جائے پھر ہم تم ہوں گے سگریٹ ہوگی۔جسم میری بات مان گیا مگر تیسرے ہفتے پھر نکوٹین کا تقاضا شروع کردیا۔میں نے دوبارہ اسے بٹھا کے سمجھایا کہ ٹینشن کائے کو لینے کا ۔بس سات دن بعد آنے والے جمعے کو انشااللہ ہم دونوں ایک ساتھ پہلا کش لگائیں گے ۔ جسم نے کچھ ردو کد کے بعد میرا وچن قبول کرلیا۔مگر عین اس وقت میرے اندر کا شیطان جاگ پڑا اور صلاح دی کہ جہاں تین ہفتے بنا نکوٹین گزار دئیے وہاں چوتھا بھی گزار دیکھو ، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے ۔ چنانچہ جب جمعہ کا دن آیا تو ایک عجیب بات ہوئی کہ میرے جسم میں نصب نکوٹینی کلاک نے کوئی دہائی نہیں دی۔اس سے بھی زیادہ انہونی یہ ہوئی کہ ناشتے اور دوپہر کے کھانے کے بعد بھی نکوٹین کی طلب محسوس نہ ہوئی ۔ یوں لگا جیسے میرا جسم مجھ ہی سے روٹھ گیا ہو اور اب وہ الٹا مجھے آزما رہا ہو۔یوں پانچواں ، چھٹا ، ساتواں ہفتہ بھی گزر گیا ۔تب میں نے فیصلہ کیا کہ سگریٹ نہیں پیوں گا اور نہ ہی کسی سگریٹ باز محسن کی چکنیوں چپڑیوں میں آؤں گا ۔وہ غیرت بھی دلائے گا تو بے غیرت بن جاؤں گا۔ کیونکہ نوے فیصد سگریٹ ترک کرنے والے اس جال میں دوبارہ اس لئے پھنس جاتے ہیں کہ انہیں یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ سگریٹ نوش ترک کے باوجود تاحیات ریڈ زون میں رہتا ہے ۔بیس برس بعد بھی اگر اس نے صرف ایک کش لگا لیا تو اسی شام تک وہ بیس کے بیس برس تپسیا سمیت دھواں ہوجاتے ہیں۔
آج چوتھا برس ہے سگریٹ چُھوٹے ۔اب آپ میرے چہرے پر مرغولے بھی چھوڑتے رہیں تب بھی ڈھٹائی کے ساتھ بیٹھا رہوں گا۔کیونکہ جب مجھے سگریٹ پینے سے موت کا خوف باز نہ رکھ سکا تو اب سگریٹ ترک کرنے کے بعد سگریٹ سے کیا ڈرنا ...
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجئے )