نثار میں تیری گلاں کے اے نثار علی

وفاقی وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان پر میں گزرے فروری سے فدا ہوں جب انہوں نے 23 یرغمالی پاکستانی سکیورٹی اہل کاروں کے سرقلم ہونے کے بعد امن مذاکرات کی معطلی کے دوران کالعدم تحریکِ طالبان کو پیش کش کی کہ وہ ہتھیاراستعمال کرنے کے بجائے قیامِ امن کے لئے حکومت سے ایک دوستانہ کرکٹ میچ کھیلیں۔طالبان ترجمان نے اس پیش کش کو فوراً ہی لہوو لعب قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔
مگر11 نومبر یعنی اب سے دو دن پہلے تو میں چودھری صاحب کے اس بیان کے بعد ان پر پوری طرح لٹو ہوچکا ہوں کہ ( شام اور عراق میں خلافت کا اعلان کرنے والی ) داعش کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں ؛ البتہ ایسے مقامی افراد یا گروہ ضرور پائے جاتے ہیں جو داعش کے حامی ہیں۔ تب سے مسلسل سر کھجاتے ہوئے میں اس بیان کا آسان اردو میں ترجمہ کرکے سمجھنے کی ناکام کوشش کررہا ہوں۔اب تک میری ناقص عقل بس یہ سمجھی ہے کہ چودھری صاحب پاکستان میں داعش کا وجود شاید اسی صورت میں باضابطہ تسلیم کریں گے جب خلافتِ اسلامیہ بلادِ عراق و شام کے خلیفہ ابوبکرالبغدادی بذاتِ خود پاکستان میں قدم رنجہ فرما کر مقامی تنظیموں کے ساتھ ایم او یوز پر دستخط اور پھر بیعتِ عام کا اعلان کریں۔
اگر میں منطقِ نثاریہ کی روشنی میں دیکھوں تو پاکستان میں القاعدہ اور تحریکِ طالبانِ کا بھی کوئی وجود نہیںکیونکہ نہ تو ہر دو تنظیمیں الیکشن کمیشن یا کمپنیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہیں‘ نہ ان کا کوئی مرکزی سیکرٹریٹ ہے، نہ ہی انہوں نے کبھی کوئی جلسہ کیا۔ جلسہ تو دُور کی بات، آج تک ریلی بھی نہیں نکالی۔اب صرف وال چاکنگ ، پریس ریلیز، ٹوئٹر میسیج اور ویڈیو جاری کردینے یا کسی اخبار و ملکی و غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے دفتر میں فون کردینے سے تو یہ ثابت نہیں ہوتا کہ فلاں حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والا واقعی القاعدہ یا طالبان یا ان کی کسی ذیلی تنظیم کا ترجمان ہے یا کوئی مخولیا ہے۔ اس شبہے کو مزید تقویت یوں بھی ملتی ہے کہ طالبان سے امن بات چیت کے دوران جس کمیٹی سے حکومت کا آمنا سامنا ہوا ، اس میں بھی دور دور کوئی طالب نہیں تھا۔ پس ثابت ہوا دنیا گول ہے۔
چونکہ داعش کا پاکستان میں کوئی باضابطہ وجود نہیں لہٰذا سابق طالبان ترجمان شاہد اللہ شاہد کے ان دعووں پر بھی فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں کہ چھ طالبان کمانڈر (سعید خان آف اورکزئی ایجنسی ، دولت خان آف کرم ایجنسی ، فتح گل زمان آف خیبر ایجنسی، مفتی حسن آف پشاور‘ خالد منصور آف ہنگو ) اور القاعدہ سے منسلک دو تنظیمیں داعش سے بیعت کر چکے ہیں۔ طالبان کے امیر ملا فضل اللہ کے اس دعوے کی بھی کوئی حقیقت نہیں کہ ان کے ایک ہزار سے زائد مجاہدین عراق اور شام میں مصروفِ جہاد ہیں اور مزید پہنچ رہے ہیں ،کیونکہ اگر میں منطقِ نثاریہ کے تحت مولوی صاحب کے دعوے کو پرکھوں تو اسی نتیجے پر پہنچوں گا کہ پاکستانی امیگریشن کو جُل دے کر کئی ملکوں سے بِنا قانونی سفری دستاویزات کے گزرتے ہوئے عراق اور شام میں ویزے کے بغیر کون داخل ہوسکتا ہے۔ اگر اتنا ہی آسان ہوتا تو پاکستانی دفترِ خارجہ کے مطابق پچھلے پانچ برس میں اڑتالیس ممالک سے ڈھائی لاکھ غیر قانونی پاکستانی کاہے کو 'دھکالے‘ جاتے۔
ایک عراقی تنظیم انصار الاسلام کی وہ ویڈیو بھی سنجیدگی سے لینے کی چنداں ضرورت نہیں جس میں پاکستانی مجاہدین کو عراق یا شام کے کسی مقام پر غازی رشیدکیمپ میں عسکری تربیت لیتے دکھایا گیا ہے ( یہ ویڈیو آج نہیں پچھلے مارچ میں جاری کی گئی تھی) اور اس سے بھی کہیں پہلے گزشتہ برس نومبر میں عالمی ادارہِ صحت کے اس بیان کو بھی گھاس ڈالنے کی ضرورت نہیں کہ شام‘ جسے 1999ء میں پولیو سے پاک ملک قرار دیا گیا تھا‘ میں دوبارہ وائرس آگیا ہے اور اس کے ڈانڈے پاکستان سے ملتے ہیں اور اب یہ شام سے متصل ممالک میں داخل ہوچکا ہے۔
پشاور میں چند ماہ قبل داعش کے پمفلٹ کا بٹنا ، خانیوال ، ہنگو اور کراچی میں داعش کے حق میں وال چاکنگ ، لاہور میں داعش نواز سٹکرز کی تقسیم اور واہگہ کی سرحد پر خود کش حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی جماعت الاحرارکی جانب سے اس کارروائی سے پہلے داعش میں شمولیت کا اعلان۔۔۔۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ جب وفاقی وزیرِ داخلہ کے لئے اس کی اہمیت نہیں تو باقی پاکستانی کیوں فکر میں دبلے ہوں۔
چودھری صاحب کی داعشانہ عدم وجودی وضاحت کے بعد کم از کم بلوچستان کی وزارتِ داخلہ کا مارے شرمندگی منہ چھپانا بنتا ہے جس نے اپنی شہرت داؤ پر لگا کر وہ بے بنیاد خفیہ وارننگ رپورٹ31 اکتوبر کو متعلقہ اداروں کو ارسال کی کہ دس تا بارہ ہزار رضاکار داعش کے حامی ہیں۔ داعش کی ایک مقامی دس رکنی عسکری منصوبہ ساز کمیٹی بھی بن چکی ہے اورکالعدم لشکرِ جھنگوی سمیت چند گروہوں کے کچھ ارکان کو ساجھے کی پیش کش بھی ہے۔ ایک موقر انگریزی روزنامے میں حکومتِ بلوچستان کی اس خفیہ رپورٹ کے شائع مندرجات میں یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا کہ آنے والے دنوں میں شمالی وزیرستان میں آپریشن ضربِ عضب کے خلاف پُرتشدد ردِ عمل اور اہلِ تشیع کے خلاف ممکنہ کارروائیوں میں داعش سے منسلک گروہ بھی شامل ہوں گے۔
امید ہے جب تک یہ کالم آپ تک پہنچے گا تب تلک بلوچستان کے وزیرِ داخلہ ، وفاقی وزیرِ داخلہ کے وضاحتی بیان کی روشنی میں اپنی غیر ذمہ داری کا اعتراف کرتے ہوئے استعفی دے چکے ہوں گے۔ صوبائی محکمہ داخلہ جتنا بھی طرم خان بنے مگر وفاقی وزیرِ داخلہ سے زیادہ اپ ٹو ڈیٹ اور باخبر تو نہیں ہوسکتا۔ چودھری صاحب بھلے اپنا زیادہ وقت اسلام آباد یا آبائی قصبے چکری میں ہی ناراض ہوتے‘ مَنتے گزارتے ہوں۔ بھلے وہ پشاور ، کوئٹہ یا کراچی کا تبرکاً ہی دورہ کرتے ہوں مگر اپنے جامِ جم میں جو وہ دیکھ سکتے ہیں ، یہ سہولت صوبائی داخلہ محکموں کوکہاں نصیب۔
پچھلے اڑتالیس گھنٹے سے تو مجھے یہ گمان بھی ہو رہا ہے کہ ہو نہ ہو صاحب ِ بصیرت چودھری صاحب صاحبِ کشف ہستی ہیں۔7 جون کو ہی حضرت صاحب کی ساتویں حس نے بتادیا تھاکہ اگلے چند گھنٹوں میں کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے ، لیکن وہ چونکہ شریف برادران سے خفگی کے سبب چند ہفتے سے گھر پر ہی حالتِ چلہ کشی میں تھے‘ لہٰذا خودکو موبائل فون سمیت تمام دنیاوی آلائشوں سے دور کئے رکھا؛ چنانچہ جب 8 جون کی شب کراچی ایئرپورٹ پر ازبک جنگجوؤں نے ہلہ بولا تو آپ کا موبائل فون حسبِ توقع شب بھر بند رہا تاکہ استغراق میں خلل نہ پڑے۔ حاسدوں نے مشہورکردیا کہ چودھری صاحب نے جان بوجھ کے خودکو کراچی ایئرپورٹ آپریشن سے الگ تھلگ کئے رکھا تاکہ شریف برادران کو لگ پتہ جائے کہ مجھے ناراض کرنے کا کیا نقصان ہوسکتا ہے۔ بقول حاسدین اس واقعہ کو اشارہِ سماوی جان کر شریف برادران نے چودھری صاحب کی جلالی طبیعت کو نرم کرنے کی بھرپور سعی کی اور چودھری صاحب نے بھی بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت پر پھر سے شفقت فرمائی۔
اس کے بعد سے یہ چودھری صاحب کے وجودِ بابرکات کا ہی تو فیض ہے کہ اسلام آباد کا بڑا سا دھرنا چھوٹا ہوتے ہوتے بالکل ہی چھوٹے میں تبدیل ہوچکا ہے۔ پنجاب میں جرائم پیشہ عناصر چودھری صاحب کا نام سنتے ہی کانوں کو ہاتھ لگانے لگے ہیں۔ تحریکِ طالبان پنجاب نے چودھری صاحب کی لال آنکھوں میں ''اوئے بندے بن دے اوکہ آواں ‘‘ کا پیغام پڑھتے ہی تحریکِ طالبان پاکستان سے قطع تعلق کر لیا۔کراچی میں ایک برس سے جاری آپریشن کی چودھری صاحب چونکہ بذاتِ خود نگرانی کررہے ہیں لہٰذا آج کوئی بھی بچشمِ بند دیکھ سکتا ہے کہ کراچی امن و امان کا گہوارہ ہے۔ اس شہر میں بسنے والے صبح سے شام تک چودھری صاحب کی درازیِ وزارت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔
مگر میری کور چشمی ملاحظہ ہوکہ اس وقت بھی چودھری صاحب کے تازہ داعشی فرمودے کا آسان اردو میں ترجمہ کرکے سمجھنے کی کوشش کررہا ہوں کہ پاکستان میں داعش کا کوئی وجود نہیں ؛ البتہ ایسے مقامی گروہ ضرور پائے جاتے ہیں جو داعش کے حامی ہیں۔
اے خدائے برتر مجھ جاہل پر رمزِ نثاریہ پوری پوری وا کر دے، آمین!
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لئے bbcurdu.com پر کلک کیجئے) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں