فیلڈ مارشل عاصم منیر کیساتھ ملاقات کا ڈر مودی کو لے بیٹھا
واشنگٹن (نیوز مانیٹرنگ )رواں سال مئی میں بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کے بعد نئی دہلی کے حکام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دعوے پر سخت برہم تھے کہ انہوں نے چار روزہ جنگ کا خاتمہ کرایا۔
امریکی خبر رساں ادارے بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق جب امریکی صدر بار بار اس بات پر زور دیتے رہے کہ انہوں نے ایک ایٹمی جنگ کو روکا تو بھارتی سفارتکاروں نے عوامی سطح پر ان کے موقف کی مخالفت شروع کر دی۔یہ کشیدگی 17 جون کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ایک فون کال میں اپنے عروج پر پہنچی، یہ بات چیت اس وقت ہوئی، جب ٹرمپ کینیڈا میں ہونیوالے گروپ آف سیون سربراہی اجلاس سے قبل ہی روانہ ہو گئے تھے اور بھارتی رہنما سے بالمشافہ ملاقات نہ کر سکے تھے ۔اس 35 منٹ کی گفتگو میں مودی نے ٹرمپ سے کہا کہ بھارت کبھی بھی ثالثی کو قبول نہیں کرتا اور نہ ہی کرے گا،مودی کو یہ وضاحت اس لئے ضروری لگی کیونکہ انہیں معلوم ہوا کہ ٹرمپ اگلے دن پاکستانی آرمی چیف سید عاصم منیر کو وائٹ ہاؤس میں دوپہر کے کھانے پر مدعو کرنے والے ہیں۔بھارتی حکام کے مطابق اگرچہ سویلین پاکستانی قیادت سے ملاقات پر کوئی اعتراض نہ تھا لیکن پاکستانی آرمی چیف سید عاصم منیر کو مدعو کرنا پاکستانی فوج کو بین الاقوامی جواز دینا سمجھا گیا، اس خدشے کے پیش نظر کہ ٹرمپ مودی اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی ملاقات کا انتظام کر سکتے ہیں، مودی نے وائٹ ہاؤس کی دعوت کو ٹھکرا دیا اور کروشیا کے طے شدہ دورے کو ترجیح دی۔
اگرچہ امریکا نے کبھی براہ راست یہ درخواست نہیں کی کہ مودی جنگ بندی میں ٹرمپ کے کردار کو تسلیم کریں لیکن نئی دہلی کے حکام کے مطابق اس فون کال کے بعد وائٹ ہاؤس کے لہجے میں تبدیلی محسوس کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ٹرمپ نے بھارت پر کھلے عام تنقید شروع کی، تو یہ تعلقات میں بگاڑ کا واضح اشارہ تھا۔مئی اور جون کے واقعات دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ میں حیران کن اضافے کی وضاحت کرتے ہیں، جو اس ہفتے اس وقت اپنے عروج پر پہنچا جب ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ امریکی منڈی میں بھارتی برآمدات پر 50 فیصد ٹیرف لگائیں گے ، جس میں نصف حصہ روسی تیل کی خریداری پر جرمانے کے طور پر شامل ہے ۔بلوم برگ کی ایک اور رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں تقریباً تنہا نظر آنے والا پاکستان، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ تعلقات میں سبقت لے گیا ہے ۔ یہ ان چند ممالک میں شامل ہے جنہوں نے امریکا کے ساتھ نسبتاً آسانی سے تجارتی معاہدہ کر لیا جبکہ سوئٹزرلینڈ، برازیل اور پاکستان کے حریف بھارت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ٹرمپ کی پاکستان میں دلچسپی کی کئی وجوہات ہیں ، دنیا کے سب سے بڑے غیر استعمال شدہ سونے اور تانبے کے ذخائر، جن پر امریکا یوکرین جیسے معدنی معاہدے کی امید رکھتا ہے اور ملک میں تیل کے وسیع ذخائر کی تلاش میں امریکی سرمایہ کاری، اس کے علاوہ کرپٹو کرنسی کے شعبے میں بھی ٹرمپ سے منسلک ورلڈ لبرٹی فنانشل نے پاکستان کے ساتھ کام کرنے کا معاہدہ کیا ہے ۔