اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

شہروں کے مسائل کیسے حل ہوں گے؟

گزشتہ روز شہروں کا عالمی دن ان حالات میں منایا گیا کہ ماضی کی طرح آج بھی دنیا بھر میں شہروں کی آبادی اور مسائل میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ مشاہدے میں آ رہا ہے اور پاکستان کے شہر متعدد وجوہ کی بنا پر ان مسائل کا زیادہ شکار نظر آتے ہیں۔ کراچی‘ لاہور‘ حیدر آباد‘ فیصل آباد‘ ملتان‘ گوجرانوالہ ‘ راولپنڈی‘ پشاور اور کوئٹہ ہمارے ملک کے نو سب سے بڑے شہر ہیں اور سبھی ایک جیسے مسائل کا شکار جیسے ادھڑی ہوئی سڑکیں‘ بلاک ہو چکے سیوریج سسٹم‘ گندگی سے اٹے نکاسی کے نالے‘ ٹرانسپورٹ کی قلت‘ ٹریفک جام‘ پینے کے صاف پانی کی قلت‘ فضائی آلودگی ‘ طویل مسافتیںاور صفائی کا ناقص انتظام۔ ان مسائل کی دو بڑی وجوہ ہیں۔ پہلی: روزگار کی تلاش اور دوسری سہولتوں کے حصول کیلئے لوگوں کی دیہات سے شہروں کی جانب نقل مکانی کابلا روک ٹوک سلسلہ۔ اس نقل مکانی اور مقامی آبادی کے بڑھنے سے شہروں کی ڈیموگرافی تبدیل ہو رہی ہے۔ ایک زمانے میں ہمارے ملک میں شہری آبادی 25 فیصد اور دیہی آبادی75 فیصد کے لگ بھگ ہوتی تھی‘ لیکن اب یہ تناسب تبدیل ہو چکا ہے۔ دیہی آبادی کم ہو رہی ہے کیونکہ شہروں کی طرف نقل مکانی کی رفتار بڑھ رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ زیادہ آبادی کے لیے زیادہ وسائل کی ضرورت ہوتی ہے‘ لیکن یہاں برسرِ اقتدار رہنے والی حکومتوں نے آبادی کے بڑھنے کے تناسب سے شہری سہولتوں میں اضافے کا اہتمام نہیں کیا‘ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے شہر گمبھیر مسائل کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔ دنیا بھر میں شہری انتظامات مقامی انتظامیہ کے سپرد ہوتے ہیں اور وہی ان مسائل کو حل کرنے کی ذمہ دار بھی ہوتی ہے‘ لیکن ہمارے ملک میں جمہوریت کی دعویدار سیاسی جماعتوں کے ادوارِ حکومت میں مقامی حکومتوں کے نظام کے قیام اور استحکام سے بالقصد پہلو تہی بلکہ مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا جاتا رہا ۔ شہروں میں مسائل کے انبار لگنے کی سب سے بڑی وجہ یہی غفلت اور پہلوتہی ہے۔ شہروں کی آبادی میں اضافہ مضافات میں بے ہنگم ہائوسنگ سکیموں کے کھمبیوں کی مانند بڑھنے کا باعث بھی بنا۔ ان نئی آبادیوں میں ہائوسنگ کی جدید ضروریات کا بہت کم خیال رکھا جاتا ہے‘ جس کا نتیجہ مسائل میں اضافے کی شکل میںسامنے آتا ہے۔ شہروں اور شہریوں کو ان مسائل سے نجات دلانے کیلئے سب سے پہلے اور جلد از جلد ملک میں بلدیاتی نظام کی بحالی کے اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ مقامی حکومتیں مقامی ضرورتوں کو پیشِ نظر رکھ کر درپیش مسائل کے حل پر توجہ مبذول کر سکیں۔ اتنا ہی اہم کام یہ ہے کہ دیہات میں جدید سہولتوں کی فراہمی پر توجہ دی جائے تاکہ وہاں سے شہروں کی جانب نقل مکانی کی رفتار کو کم کیا جا سکے۔ صنعتی اور زرعی شعبوں میں ایسی منصوبہ بندی ہونی چاہیے کہ لوگوں کو دیہات میں روزگار کے وافر اور مناسب مواقع بہ سہولت میسر آئیں۔ علاوہ ازیں ایسی قانون سازی ہونی چاہیے کہ شہروں کے بے تحاشا پھیلائو کو روکا جا سکے اور نئی ہائوسنگ سکیموں کو منظم اور مربوط رکھا جا سکے۔ شہروں کا حجم چھوٹا رکھنا بھی ضروری ہے۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں