اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

تھیلیسیمیا سے بچائو ممکن ہے!

گزشتہ روز جب تھیلیسیمیا سے بچائو کے حوالے سے عالمی دن منایا جا رہا تھا تو تقریروں اور سیمینارز سے معلوم ہوا کہ پاکستان میں ایک لاکھ افراد خون کی اس بیماری کا شکار ہیں اور ہر سال اس مرض میں مبتلا افراد کی تعداد میں پانچ تا چھ ہزار کا اضافہ ہو جاتا ہے‘ جو ظاہر ہے کہ بچے ہی ہوتے ہیں۔ اس بیماری سے بچائو کا واحد طریقہ شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی کے خون کے ٹیسٹ ہیں‘ جن سے پتا چل جاتا ہے کہ شادی کی صورت میں ان سے پیدا ہونے والے بچے تھیلیسیمیا کا شکار ہوں گے یا نہیں۔ حکومت اگر ان ٹیسٹوں کو شادی یا نکاح کیلئے ضروری قرار دے دے تو چند برسوں میں اس بیماری کا مکمل خاتمہ ہو سکتا ہے یا مریضوں کی تعداد میں کمی آ سکتی ہے۔

یہ ٹیسٹ نہ کرانے کا نتیجہ تھیلیسیمیا کے مریض بچے جب تک زندہ رہتے ہیں‘ بھگتتے ہیں اور ساتھ انکے والدین بھی ایک اذیت ناک صورتحال سے دوچار رہتے ہیں کہ ایسے بچوں کو ہر پندرہ روز بعد تازہ خون لگوانا پڑتا ہے‘ بصورت دیگر بیماری پیچیدہ شکل اختیار کر جاتی ہے اورموت پر بھی منتج ہو سکتی ہے۔ پھر ایسے بچوں کی بڑھوتری بھی باقی بچوں جیسی نہیں ہوتی اور وہ اگر زندہ رہ بھی جائیں تو معاشرے کیلئے مفید اور کارآمد ثابت نہیں ہو سکتے۔ ضروری ہے کہ نوجوانوں میں تھیلیسیمیا کے حوالے سے ٹیسٹ کے بارے میں آگاہی بڑھائی جائے تاکہ اس بیماری کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement