اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

احتساب ، نظام اور بیانیہ

 وزیر اعظم کے مشیرِ احتساب و داخلہ شہزاد اکبر کے استعفے کے اصل محرکات جو بھی ہوں مگر اس سے ایک بات ضرور واضح ہو جاتی ہے کہ حکومت اپنے احتساب بیانیے کو نتیجہ خیز بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ عمران خان صاحب کا سب سے بڑا انتخابی وعدہ کرپشن کا خاتمہ‘ کرپٹ مافیا کو سزائیں دینا اور لوٹی ہوئی دولت کی واپسی تھا‘اور ان اہداف کے لیے شہزاد اکبر صاحب کی صلاحیتوں پر اعتبار کیا گیا۔شہزاد اکبرجو2018 ء سے وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے احتساب و داخلہ اور اثاثہ جات کے ریکوری یونٹ کے سربراہ بنائے گئے اور جولائی 2020 ء میں ا نہیں وزیر اعظم کا مشیر برائے احتساب مقرر کر دیا گیا‘یہ عہدہ وفاقی وزیر کے برابر تھا۔

وہ سوئس اکاؤنٹس میں پاکستانیوں کے تقریباً 280 ارب ڈالرز کی موجودگی اور اس بھاری رقم کی واپسی اور 100 بڑے مگرمچھوں کی نشاندہی اور منی لانڈرنگ کے پیسے کی واپسی جیسے بڑے بڑے دعووں کے ساتھ اقتدار کے منظر نامے پر چھائے رہے ‘ مگر گزشتہ روز جب انہوں نے رضاکارانہ طور پر اپنے غیر معمولی عہدے سے استعفیٰ دیا ‘ شہزاد اکبر کی ساڑھے تین سالہ کارکردگی کا حساب لگایا جائے تو نت نئے دعووں اور چیختے ہوئے اعدادوشمار پر مبنی بیانات کے سوا حکومت کے پہلے معاونِ احتساب کے اثاثے میں کچھ نہیں ملتا۔یہ نتیجہ حکومت کے احتساب بیانیے کے لیے بھی غیر معمولی جھٹکا ہے۔ جب نظام کی مضبوطی پر توجہ دینے کے بجائے شخصیات کو بااختیار بنانے پر زور دیاجاتا اور مخصوص افراد پر کلی طور پر انحصار کیا جاتا ہے تو اسی طرح ہوتا ہے۔

حکومت بظاہر جن واضح اہداف کے ساتھ آئی‘ اگر شخصیات کے بجائے اداروں کی مضبوطی پر توجہ دیتی اور شخصیات اس نظام کے کل پرزوں کی حیثیت سے کام کرتیں تو حکومتی اہداف اشخاص کے مرہونِ منت نہ رہتے اور کسی کا جانا یا کسی کا آنا یوں حیرت کا باعث نہ ہوتا‘مگر حکومت نے معیشت‘ احتساب اور انتظامی اصلاحات کے معاملے میں چند شخصیات کو گرو بنا کر پیش کیا مگر حیران کن طور پر ایک ایک کر کے حکومت کے یہ سورما پچھڑتے چلے گئے۔ مشیرِ احتساب شہزاد اکبر نے اگرچہ سب سے زیادہ دیر مورچے پر ڈٹے رہنے کا ریکارڈ قائم کیا مگر اپنے دیگر ساتھیوں کی طرح انہوں نے بھی یہ ثابت کیا کہ جس کام کے لیے ان پر انحصار کیا گیا تھا وہ اس کے لیے نہیں بنے تھے۔

وہ چاہتے تو احتساب کا محور بننے کے بجائے ایک سسٹم کو ڈویلپ کرکے اپنی ذمہ داریاں بہتر افراد کے ساتھ تقسیم کرتے‘ مگرانہوں نے احتساب کے وسیع و عریض نظام کا مرکزی نقطہ خود بننا پسند کیا؛چنانچہ ان کے منظر سے ہٹنے کے ساتھ حکومت کے احتساب بیانیے کی بے مائیگی کا احساس شدت کے ساتھ ہو رہا ہے۔ شہزاد اکبر صاحب کی جگہ بھی پُر ہو گی ‘ مگر ان کی قریب دو برس کی کارکردگی کا خلا پُر کرنا آسان نہیں ہو گا۔ یہ کام قدرتی طور پر ہوجاتا اگر شہزاد اکبر پر بطور شخص تکیہ کرنے اور ہر عمل کے فوری نتیجے کی خواہش کے بجائے احتساب کو بطورِ نظام پروان چڑھایا جاتا۔ وزیر اعظم احتساب کو ریاست کے ایک نظام کی صورت تقویت اختیار کرنے دینے‘ نہ کہ اسے حکومت یعنی حکمران جماعت کے سیاسی ایجنڈے کے تحت رکھ کر دیکھا جاتا۔اداروں کا استحکام ریاست کی مضبوطی اور ترقی کا بنیادی نسخہ ہے ‘ مگر اداروں کی مضبوطی اسی وقت ترجیح بن سکتی ہے جب حکومتیں اپنے جماعتی ایجنڈوں سے آگے دیکھنے کی سوچ پیدا کریں۔ مشیرِ احتساب کے استعفے پر حکومت کے کئی زعما نے اظہارِ خیال کیا مگروزیر اطلاعات فواد چودھری کے خیالات سب سے زیادہ جدا تھے۔

آپ کا کہنا تھا کہ شہزاد اکبر نے شدید دباؤ میں کام کیا‘ مافیاز پر کام کرنا آسان نہیں تھا لیکن انہوں نے بہترین طور پر کیسز کو دیکھا۔حیرت ہے کہ وزیر اطلاعات نے ان تاثرات کا اظہار شہزا د اکبر کے استعفے تک کیوں مؤخر رکھا۔ اگر حکومت کے مشیرِ احتساب کو کسی قسم کی مشکلات کا سامنا تھا تو اس کا اظہار اسی وقت ہونا چاہیے تھا بلکہ اظہار ہی کیوں‘ حکومتِ وقت کے پاس سبھی قانونی اختیار ہیں اور وہ ہر طرح کی رکاوٹوں کو عبور کرنے کا قانونی اختیار رکھتی ہے۔شہزاد اکبر وزیر اعظم کے بھرپور اعتماد اور مکمل اختیارات کے ساتھ احتساب اور داخلہ کی مشاورت کے عہدے پر فائز تھے۔انہوں نے کبھی کسی دباؤ یامافیا کی جانب سے رکاوٹوں کی بات نہیں کی۔اپنے استعفے میں بھی انہوں نے کسی دباؤ کا ذکر نہیں کیا۔

پھر ان پر دباؤ کون سا تھا؟ یا وزیر اطلاعات کس مافیا کی بات کرتے ہیں؟کیا دباؤ اور مافیا کی رکاوٹ کارکردگی کی ناکامی کا جواز ہو سکتا ہے؟ دنیا کی کون سی حکومت یا ادارہ ہے جس کیلئے کام کی راہ میں رکاوٹیں نہ ہوں‘مگر سسٹم مضبوط ہو تو دباؤ اور مافیا کام میں رکاوٹ بننے کی جرأت نہیں کر سکتے۔جو ممالک زیادہ ترقی یافتہ ہیں وہاں مافیا اور مفاداتی گروہ ہماری نسبت زیادہ مضبوط ہیں‘ مگر سسٹم کی مضبوطی ان کے کسی عہدیدار کو کہیں بھی پسپا ہونے نہیں دیتی۔

حقیقت یہ ہے کہ کارکردگی کی جس ناکامی کو حکومت دباؤ کا نام دے رہی ہے وہ شہزاد اکبر صاحب کی قابلیت اور وزیر اعظم عمران خان کی مردم شناسی میں تھی۔حکومت نے اپنے سب سے اہم ایجنڈے کیلئے شہزاد اکبر صاحب پر انحصار کیا مگر وقت نے ثابت کیا ہے کہ وہ جتنا کرسکتے تھے انہوں نے اس سے بہت زیادہ دعوے کیے اورساڑھے تین سال حکومت میں ایک مضبوط ترین پوزیشن پر ان کی موجودگی کا حاصل ایک بے جوڑ ‘ غیر مربوط اور بے سمت احتسابی عمل ہے ‘ جس کے نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکنے کا سبب مافیا اور دباؤ کو قرار دے کر حکومت اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی کرنا چاہتی ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement