سوشل میڈیا ‘ قوانین اور آداب
سوشل میڈیا نے انسانوں کو رابطے اور خیالات کے اظہار کے جدید اور کم خرچ وسائل فراہم کیے ہیں تو اس کا مقصد انسانوں میں جڑت اور تبادلۂ خیال کے ذریعے ایک دوسرے کو بہتر طور پر سمجھنے کے مواقع پید ا کرنا تھا مگر وطنِ عزیز میں سوشل میڈیا کے وسائل کا منفی استعمال جس حد تک بڑھ چکا ہے اسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ بے بنیاد اور سراسر جھوٹ پر مبنی مواد کی تخلیق اور آگے بڑھانا ہمارے ہاں سوشل میڈیا کا چلن بن چکا ہے۔لوگ انفرادی سطح پر بھی ایسا کرتے ہیں مگر زیادہ تر منفی مواد کی تشہیر کے پیچھے منظم گرو ہ متحرک پائے جاتے ہیں۔ یہ صورتحال گہری تشویش کا باعث ہے۔ سوشل میڈیا کی سرگرمیاں قوا عدو ضوابط اور آداب سے ماورا نہیں ہو سکتیں اور ہمارے ہاں اس حوالے سے قوانین موجود ہیں مگربڑھتا ہوا منفی استعمال اور سوشل میڈیا کے ذریعے ملک اور ملکی اداروں کے خلاف پروپیگنڈے کو دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ یہ قوانین بے اثر ہیں۔ہمارے قوانین بنیادی طور پر سزاؤں کی سختی پر انحصار کرتے اور سخت تعزیر کے ذریعے قانون کی عمل داری یقینی بنانے کے تصور پر مبنی ہیں‘مگر ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا کہ بے بنیاد اور صریحاً جھوٹ پر مبنی باتوں کو آگے بڑھانا عوامی شعور کا مسئلہ بھی ہے۔ یہ سچ ہے کہ بہت سے لوگ جان بوجھ کر پروپیگنڈے کا محرک بنتے ہیں‘مگر بہت سے لوگ کم عملی کی وجہ سے بھی اس کے مرتکب ہو سکتے ہیں؛ چنانچہ سزا کے ساتھ آگاہی کا پہلو بھی مد نظر رہنا چاہیے اور یہ حکومت کی ایک بنیادی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو آگاہی فراہم کی جائے اور شہریوں کو سوشل میڈیا کے آداب‘ قوانین اور ان کی ذمہ داریوںسے آگاہ کیا جائے۔درسی نصاب میں بھی اس حوالے سے ضرور ایسا مواد شامل ہونا چاہیے جو طالب علموں کو سوشل میڈیا پر ذمہ دارانہ رویے کی تلقین کرے اور سائبر ورلڈ میں دوسروں کے احترام اور قوانین کے تقاضوں سے آگاہ کرے۔ ابھی تک حکومت کی جانب سے ایسا نہیں کیا گیا ؛چنانچہ سوشل میڈیا کے منفی استعمال کے خوفناک رجحان کے اسباب کو یہاں بھی تلاش کیا جانا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں ہر سیاسی جماعت کی بھی اہم ذمہ داریاں ہیں۔سوشل میڈیا سیاسی پرچار کا ایک اہم ٹول ہے‘ دنیا بھر میں ایسا ہی ہے اور اس فائدے کو دیکھتے ہوئے ہر جگہ سیاسی جماعتیں اس سے فائدہ بھی اٹھاتی ہیں۔ یہاں بھی تقریباً سبھی سیاسی جماعتوں کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس موجود ہیں‘ مگر کیا یہ ہر حال میں مروجہ آداب کے مطابق کام کرتے ہیں؟ اس کا جواب دینا مشکل نہیں۔ سیاسی جماعتیں جب تک اس ضمن میں اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں کریں گی اور سوشل میڈیا پر مخالفین کے خلاف ہر حد تک جانے کو جائز سمجھیں گی تو عوام اس رویے کے منفی تاثرات سے کیونکر محفوظ رہ سکیں گے۔ سیاسی رہنما اور رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھنے والے دیگر حلقے سوشل میڈیا کے معقول استعمال کی حوصلہ افزائی اور منفی استعمال کی مذمت کریں تو اس سے کافی بہتری کا امکان ہے۔ مگر مذمت یا تعریف سے قبل ان حلقوں کو اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو مثالی بنانا ہو گا۔مخالفین کے خلاف جھوٹ اور الزام تراشی کی مہم کو ترک کرنا ہو گا۔سیاسی جماعتیں رائے عامہ پر گہرا اثر رکھتی ہیں‘ اگر کسی جماعت کی قیادت سوشل میڈیا کے آداب کو ملحوظِ خاطر رکھے گی تو قوی امکان ہے کہ اس جماعت کے پیروکاروں کی بڑی تعداد اس سے اثر لیے بغیر نہیں رہے گی۔سماجی سطح پر تبدیلی کی مناسب صورت یہی ہے کہ اصلاحِ احوال کا عمل اوپر کی سطح سے شروع ہو۔ مگر یہ سب کچھ بعض فریقین کی فکری کایا کلپ پر نہیں چھوڑا جاسکتا‘ ریاست کو بہرحال اپنا فرض بھی ادا کرنا ہے اور اس کیلئے جھوٹی اطلاعات پھیلانے کی مہم اور ملکی اداروں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والوں سے سختی سے نمٹنا ہو گا۔ سوشل میڈیا کا منفی استعمال‘ جو وباکی سی تیزی سے پھیل رہا ہے کی جانب سے مزید آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔