سیاسی انتشار، نئی صورتیں، نئے اندیشے
ملک کے سیاسی حالات میں بہتری کی کوئی کوشش کارگر نظر نہیں آرہی۔ امیدیں بنتی ہیں اور ٹوٹ جاتی ہیں‘ پیش رفت کا امکان پیدا ہوتا ہے اور حالات کی بے رحمی اسے تحلیل کر دیتی ہے۔ دو روز پہلے وزیر اعظم شہباز شریف اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے اپنے انداز میں جس طرح مکالمے کی ضرورت کو واضح کرتے ہوئے اس پر آمادگی کا اظہار کیا تھا ‘ اسے سیاسی تناؤ میں کمی کے امکان کے طور پر دیکھا جارہا تھا ‘ اور جمعے کے روز لاہور ہائی کورٹ میں عمران خان کی پیشی‘ حفاظتی ضمانت اورپنجاب کی نگران حکومت اور پی ٹی آئی میں وارنٹ گرفتاری اور سرچ وارنٹ کی تعمیل کے حوالے سے طے پانے والے معاہدے سے لگ رہا تھا کہ مثبت پیش رفت ہو گی ‘ مگر دس ‘ بارہ گھنٹے کے اندر ہی یہ امید دم توڑ گئی اور ایک بار پھر ہم من حیث القوم اس مقام پر کھڑے تھے جہاں اس ہفتے کے شروع میں آغاز کیا تھا۔لاہور میں عمران خان کی رہائش گاہ پر گزشتہ روز کی پولیس کی کارروائی کی قانونی حیثیت سے قطع نظر اس جلد بازی میں کی گئی کارروائی نے ملک کے سیاسی حالات کے لیے جلتے پر تیل کا کام کیا ہے ۔اس دوران جب ملک پہلے ہی سیاسی انتشار کا شکار ہے اس قسم کی کارروائیوں کے نتائج خرابی میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں اور اس دوران جب معاملات کو سیاسی دانش مندی سے سلجھانے کی ضرورت تھی مخالف سیاسی رہنما کے گھر پر اس طرح کی کارروائی سمجھ سے بالاتر ہے۔ ضروری ہے کہ انتقام کی آگ دھکانے کے بجائے سیاسی رہنما اس کے منفی اثرات اور ملک و قوم کے لیے اس کے نقصانات کو سمجھیںاور ملک و قوم کو اس کے اثرات سے بچانے کے لیے بروئے کار آئیں۔ اس سے بڑی بد قسمتی کیا ہو سکتی ہے کہ اس دوران جب ہمارا سب سے بڑا اور حقیقی مسئلہ معیشت ہے ہمارے رہنما اس جانب سے توجہ ہٹا کر اور معیشت کی ڈوبتی کشتی کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر سیاسی ٹکراؤ پر کمر بستہ ہیں۔ کیا یہ سادہ سی حقیقت ان کی سمجھ میں نہیں آ رہی کہ ملک کا سیاسی انتشار معاشی بحران کو یہاں تک بڑھانے کا سب سے بڑا محرک ہے مگر یہ زبانی کلامی اختلاف اب باقاعدہ تصادم کی صورت اختیار کررہا ہے تو ملکی معیشت کی رہی سہی ساکھ کو بھی نیست و نابود کر دے گا۔یہ ہمارے سیاسی حالات ہی کا نتیجہ ہے کہ ہمیں دنیا میں کہیں سے قرض بھی نہیں مل رہے۔ دوست ملک چین کا شکریہ کہ اس نے حال ہی میں ایک قرض ری شیڈول کر دیا ہے مگر اس سے دو روز پہلے چینی حکام کی جانب سے چینی بجلی گھروں کے واجب الادا ڈیڑھ ارب ڈالر کا تقاضا اور چینی کمپنیوں کے فنڈز کی بیرون ملک منتقلی میں حائل رکاوٹوں پر حکومت سے تشویش کا اظہار بھی معنی خیزہے۔ صرف چین تک محدود نہیں ‘ زر مبادلہ کے محدود ذخائر کی وجہ سے ہمارے معاشی منصوبہ سازوں نے دیگر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منافع کی رقوم کی منتقلی اور بیرون ملک سے خام مال کی درآمد کی راہیں روک کر عالمی معاشی حلقوں میں پاکستان کے معاشی اعتبار کو ختم کر دیا ہے۔ ان حالات میں سیاسی سطح پر جو کچھ ہو رہا ہے دنیا اسے معاشی منظر نامے کے ساتھ ملا کر دیکھتی ہے تو ہم اسے اپنے بارے منفی نتائج اخذ کرنے سے کیسے روک سکتے ہیں؟ مگر ہم جس سمت میں بڑھ رہے ہیں ملک و قوم کے لیے اس کے بھیانک اثرات کو بھی نہیں بھولنا چاہیے۔ اس میں شبے کی گنجائش نہیں کہ سیاسی انتشار کے ماحول نے سیاسی بد نظمی کے ساتھ مل کر پاکستان کے لیے وہ خوفناک منظر نامہ تیار کر دیا ہے جس کی مثال اس ملک کی تاریخ میں ڈھونڈنا مشکل ہے۔ اس سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ اس بحران سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ اگر کوئی امکان بنتا ہے تو اسے پنپنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔