مفت آٹا مراکز پر بدنظمی
روز افزوں مہنگائی کے تناظر میں حکومت کی مفت آٹا سکیم عوام کیلئے کافی ریلیف کا سبب بن سکتی تھی مگر ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے یہ سکیم سوالیہ نشان بن چکی ہے۔کوئی دن نہیں جاتا کہ جب مفت آٹے کی تقسیم کے پوائنٹس پر بھگدڑ سے کوئی ضرورت مند جان کی بازی نہ ہارے۔ اگلے روز پشاور‘ مردان‘ مظفر گڑھ اور نارنگ منڈی میں مفت آٹے کی تقسیم کے دوران کئی شہری زخمی ہو گئے ۔بعض جگہوں پربلدیہ ملازمین کی طرف سے مفت آٹے کے ہزاروں تھیلے رشتہ داروں میں بانٹنے اور ہوٹلوں پر سستے داموں فروخت کرنے کا انکشاف بھی ہوا ہے۔ یہ سکیم 25 شعبان سے شروع ہے لیکن کیا وجوہ ہیں کہ دس روز گزرنے کے بعد بھی حکومت انتظامی معاملات بہتر نہیں بنا سکی؟ وزیر اعظم چند روز سے مختلف شہروں میں خود ان آٹا پوائنٹس کا دورہ کررہے ہیں‘ اس کے باوجود حالات جوں کے توں ہیں۔ حکومت ہر یونین کونسل میں ایک آٹا پوائنٹ قائم کرکے انتظامی معاملات بہتر بنا سکتی تھی۔ چند کلو مفت آٹے کیلئے گھنٹوں قطاروں میں لگنے والے عوام کی تعداد سے ان کی معاشی تنگدستی اور ملک میں غربت میں اضافے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ حکومت کو یہ بھی چاہیے کہ ریلیف کی قلیل المدتی سکیمیں متعارف کروانے کے بجائے عوام کی معاشی سکت بہتر بنانے پر اپنی توجہ مرکوز کرے تاکہ انہیں دو وقت کی روٹی کیلئے خوار نہ ہونا پڑے۔