اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

سیاسی اختلاف یا ذاتی دشمنی؟

ملک میں سیاسی اختلافات موجود تھے مگر حالات اس نہج کو پہنچ چکے ہیں جن کی جانب وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے اگلے روز ٹی وی انٹر ویو میںتوجہ دلائی‘ بہت سے پاکستانیوں کیلئے غیر متوقع تھا۔ ہمارے ہاں عوامی سطح پر یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ سیاستدان ایک دوسرے کے ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز ہوتے ہیں‘ اختلافات ایک دکھاوا ہے‘ مگر وفاقی وزیر داخلہ جو کچھ کہہ گئے ہیں اس سے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ سیاسی اختلافات نہیں معاملہ ذاتی دشمنی تک پہنچ چکا ہے۔ تلواریں دو ہیں اور نیام ایک۔ صد افسوس کہ یہ سوچ اوررویہ ان سیاسی جماعتوں کا ہے جو جمہوری سیاست کی دعویدار ہیں اور اسی سے اقتدار تک پہنچنے کی متمنی۔ جمہوریت نام ہی مخالف آرا کے وجود کو تسلیم کرنے کا ہے۔جمہوریت یک رخی نہیں ہوتی اور نہ ہی مخالف آوازوں کو خاموش کرنے میں یقین رکھتی ہے۔ جمہوری سیاست میں کسی کے وجود کی نفی کا سوال مد مخالف فریق طے نہیں کرسکتا‘ یہ اختیار رائے دہندگان کے پاس ہے؛ چنانچہ یہ کہنا کہ ہمارے وجود کی نفی ہوئی تو پھر یہ سوچنا غیر متعلقہ ہو جائے گا کہ کیا جمہوری ہے اور کیا غیر جمہوری‘ سیاسی حقائق اور حرکیات کو اوور ایسٹی میٹ کرنے والی بات ہے۔ جمہوری سیاست میں کوئی کسی کے وجود کی نفی نہیں کرسکتا ورنہ اقتدار اور اختیارات کی حامل قوتیں حزبِ اختلاف کی سیاست کی بیخ کُنی کردیں۔ ہمیں اس مغالطے میں ہر گز نہیں پڑنا چاہیے کہ کسی ایک جماعت کا وجود کسی دوسرے کی نفی کرتا ہے۔ جمہوریت ہو گی تو سب کیلئے گنجائش رہے گی اور اس نظام کے اندر سیاسی جماعتوں میں اقتدار کے دنوں کا الٹ پھیر‘ جیسے پہلے تھا آگے بھی یونہی رہے گا۔ جمہوری سیاست میں ممکنات کی حد کس قدر وسیع ہے اس کی بڑی مثال آج کے حکمران اتحاد کے وجود میں مل جاتی ہے۔ آج سے دو‘ تین دہائی پہلے کے حالات میں جا کر دیکھیں‘ کیا کوئی ان امکانات کا تصور کر سکتا تھا؟ مگرجمہوری سیاست کے جوہر نے یہ کر دکھایا اور ماضی کے مد مقابل گھل مل گئے۔ یہ قلبِ ماہیت اگر اب ہو سکتی ہے تو آنے والے وقتوں میں کیوں نہیں؟ اس لیے وجود کی نفی اور جمہوری غیر جمہوری کا فرق دیکھے بغیر سر دھڑ کی بازی لگادینے جیسے مایوس کن خیالات کو ذہن سے نکال دینے کی ضرورت ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اختلافات اس وقت معمول کی حد سے بڑھ چکے ہیں مگر یہ سمجھ لینا کہ ہمیشہ درجہ حرارت کی یہی کیفیت رہے گی‘ یہ نقطۂ نظر دانشمندی پر مبنی معلوم نہیں ہوتا۔ اس قسم کی باتیں ملک کے جمہوری تشخص کو بھی نقصان پہنچائیں گی۔ سیاسی کشیدگی کی وجہ سے دنیا کی نظریں پہلے ہی پاکستان کی جانب ہیں اور سبھی حیرت زدہ ہیں کہ ان حالات میں جب اس ملک کی معیشت کے گلے گلے پانی ہے سیاسی رہنماؤں کا دھیان کس طرف ہے۔ عالمی میڈیا وطنِ عزیز کا جو تاثر پیش کر رہا ہے‘ باخبر پاکستانیوں سے یہ اوجھل نہیں جبکہ سوشل میڈیا پر حالات کا جو کہرام مچا ہے وہ بھی سب دیکھتے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم عالمی برادری کا حصہ ہیں اور اس سے کٹ کر نہیں رہنا چاہتے‘ اس لیے ہم ان مانے ہوئے اصولوں اور جمہوری قدروں کی کسی نہ کسی حد تک پاسداری کے پابند ہیں بصورتِ دیگر سیاسی اختلافات جوذاتی دشمنی کی حد تک پہنچا دیے گئے ہیں‘ عالمی سطح پر انگشت نمائی کا موقع پیدا کریں گے اور ان کے مضمرات بھی ہوں گے۔ اس لیے سیاسی افہام و تفہیم ہی واحد راستہ ہے جو ہمارے لیے بحران کے اس دورِ ظلمات میں محفوظ راستہ ثابت ہو سکتا ہے‘ بصورتِ دیگر دشوار گزار اور خطرات سے بھر پور راستوں پر سفر کے تجربات ہیں جن کا حاصل لا محدود مدت کی بے یقینی‘ بد نظمی اور خوفناک بحران ہو سکتا ہے۔ وطن عزیز جیسی نوجوان آبادی والی ریاست جو پہلے ہی مسائل سے اَٹی پڑی ہے‘ عدم استحکام اس کے لیے سماجی سطح پر خوفناک ہو سکتا ہے۔ ہمارے ذمہ داروں کو چاہیے کہ اس سے ملک و قوم کو بچائیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement