اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

سپریم کورٹ ،پریکٹس اینڈ پروسیجر

اس دوران جب پنجاب اور خیبر پختونخوا میں عام انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر عمل درآمد میں ناکامی اور الیکشن کمیشن کی جانب سے صوبہ پنجاب میں کاغذاتِ نامزدگی کے مرحلے کے بعد سکروٹنی کے عمل کے دوران صوبائی اسمبلی انتخابات کو اکتوبر تک مؤخر کرنے کے فیصلے کے خلاف آئینی درخواستیںسپریم کورٹ آف پاکستان میں زیرِ سماعت ہیں‘ حکومت پاکستان کی جانب سے ’’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023ء‘‘ کے عنوان سے ایک مسودۂ قانون کا پیش کیا جانا اور اس کی منظوری کیلئے غیر معمولی عجلت وجۂ حیرت ہے۔ اس قانون سازی کا مقصد چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات کو محدود کر نا ہے اور اس موقع پر اس مسودۂ قانون کے سامنے آنے سے کئی سوال پیدا ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر حکومت کو سپریم کورٹ میں بینچوں کی تشکیل اور از خود نوٹس کے معاملات میں ’’اصلاح‘‘ کا خیال اچانک اسی وقت کیو ںآیا؟ پچھلے کچھ عرصے کے دوران اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے حکومتی اتحادکے بدلتے تیور ظاہر و باہر ہیں‘ کیایہی چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات پر قدغن لگانے کی قانون سازی کا بنیادی محرک ہے؟ کیا اس کا تعلق سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت سیاسی نوعیت کے مقدمات سے ہے‘ مثال کے طور پر دو صوبوں میں انتخابات میں تاخیر کا مقدمہ؟ حقیقت یہ ہے کہ اس حوالے سے اب کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں رہ گیا‘ اگر کوئی مغالطہ تھا تو قومی اسمبلی میں پیش کی گئی حالیہ قرار داد‘ جس میں حکومت واضح کہہ چکی ہے کہ انتخابات‘ اور سیاسی و انتظامی معاملات میں عدلیہ مداخلت سے گریز کرے‘ نے یہ پردہ بھی ہٹا دیا ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے؟ کیا سیاست‘ انتظامی معاملات اور انتخابات کے معاملات میں عدلیہ پر پابندی عائد کر کے حکومت ان معاملات میں مطلق العنانیت کے خواب دیکھتی ہے؟ سوال بہت سے ہیں اور ہر سوال تشویش‘ اضطراب اور خوف میں ڈوبا ہوا ہے۔ یہ قانون سازی‘ قرار دادیں اور بدلا ہوا لب و لہجہ واضح عندیہ ہے کہ سیاسی مفاہمت کے امکانات کو روندتے ہوئے سیاسی تصادم کے طوفان نے اب قومی اداروں کی جانب رُخ کر لیا ہے جہاں معاملات قراردادیں منظور کر نے اور چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات کی قطع برید تک آ پہنچے ہیں۔ اگرچہ گزشتہ صدی کے آخری برسوں میں پاکستان کا نظام عدل اس سے بدتر حالات کا سامنا کر چکا ہے مگر پچیس سال کے اس عرصے میں امید تھی کہ ہم اس ماضی سے آگے بڑھ چکے ہیں اور اداروں کو مضبوط کرنا صرف زبانی جمع خرچ نہیں بلکہ سیاسی جماعتیں اس عزم میں سنجیدہ ہیں۔مگر بد قسمتی سے معاملہ ایسا نظر نہیں آ رہا اور لگتا یوں ہے کہ ہم ابھی اسی دور میں زندہ ہیں اور اداروں کو گرفت میں رکھنے کی حکمرانوں کی خواہش کہیں نہیں گئی۔ مذکورہ قانون سازی جو پارلیمان کے ایوان میں برق رفتاری سے منزلیں مارتی جا رہی ہے ممکنہ طور پر اس کے لیے پہلا سپیڈ بریکرایوانِ صدر ہو گا۔ بظاہر یہ امکان موجود ہے کہ صدرِ مملکت اس پر دستخط نہیں کریں گے‘ اس کا عندیہ صدر علوی نے ایک ٹی وی پروگرام میں دیا ہے‘ بالفرض صدر کے دستخط کے بغیر مقررہ وقت کے بعد یہ قانون سازی از خود قانونی صورت اختیار کر لیتی ہے اس صورت میں بھی یہ خارج از امکان نہیں کہ سپریم کورٹ اسے عدالتی دائرۂ کار اور اختیارات میں مداخلت قرار دے کر کالعدم قرار دے دے۔ اس معاملے پرعدلیہ کی ایک اور تحریک اٹھنے کے امکان کو بھی رد کرنا مشکل ہے؛چنانچہ یہ واضح ہو جانا چاہیے کہ اصلاحات کے نام پر یہ کوشش اداروں میں محاذ آرائی کے خطرات کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔اور اس قسم کے حالات جمہوری عمل میں تعطل اور پارلیمانی افادیت پر کیوں سوالیہ نشان نہ لگا دیں گے؟ لازم ہے کہ ملک کے وسیع مفاد میںاور آنے والے حالات کا پیشگی ادراک کرتے ہوئے ایسی مہم جوئی سے گریز کیا جائے جو اداروں کو آمنے سامنے لا کھڑا کرے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement