اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

جوہری قوت کے لوازمات

آج ملک بھر میں چھبیسواں یومِ تکبیر اس عزم کی تجدید کے طور پر منایا جا رہا ہے کہ ملک کے دفاع کو مضبوط سے مضبوط تر اور اس کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے ایک ایک انچ کو ہر حال میں اور ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے گا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان جنگوں یا ہتھیاروں کی دوڑ کے حق میں نہیں مگر جس طرح اس کی سلامتی کو خطرے سے دوچار کر کے اور اسے دھمکاتے ہوئے خطے میں طاقت کا توازن بگاڑا گیا تھا‘ اس تناظر میں جوہری قوت کا حصول بقا کا مسئلہ بن گیا تھا۔ یہ عظیم سائنسی کارنامہ سرانجام دے کر ہمارے قابلِ فخر سائنسدانوں‘ انجینئرز اور پوری پاکستانی قوم نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ اس مٹی کی زرخیزی میں کوئی کلام نہیں‘ اسے محض ذرا سا نم درکار ہے۔ آج پیچھے مڑ کر چوتھائی صدی کا تجزیہ کیا جائے تو ہمارے اکابرین کے فیصلے کی اصابت ثابت ہو جاتی ہے۔ یہ ایٹمی طاقت ہی تھی جس نے نہ صرف خطے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھا بلکہ کسی نئی جنگ کو برپا ہونے سے بھی روکے رکھا۔ یقینا یہ دن دفاعِ وطن کے حوالے سے ایک منفرد مقام کا حامل ہے مگر دوسری جانب یہ اپنے محاسبے کیلئے بھی دعوتِ فکر دیتا ہے۔ کیا ملک کے دفاع کو جوہری ہتھیاروں سے لیس کر لینا ہماری حتمی منزل تھی؟ یقینا نہیں! یہ دفاعِ وطن کی راہ کا پہلا بڑا سنگِ میل تھا اور یہ منزل تب تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک ہم دیگر لوازمات کے حصول پر متوجہ نہیں ہوتے۔ دورِ جدید میں دفاع کا تصور سائنس و ٹیکنالوجی کی برتری‘ مضبوط معیشت‘ خلائی میدان میں سبقت اور افرادی وسائل سے بھرپور استفادہ سمیت مختلف شعبوں سے جڑا ہوا ہے۔ تاسف ہے کہ ان سبھی شعبوں میں ہم آج بھی خاصے کمزور ہیں۔ ایک جوہری ملک کی معیشت دنیا بھر میں طنزکا استعارہ بن چکی ہے‘ کثیر افرادی قوت بے ہنگم ہجوم کی صورت اختیار کر چکی ہے‘ یقینا یہ ہمارا مستقبل نہیں! جوہری قوت وسیع تر سائنسی میدان میں بھی نافع ثابت ہو سکتی ہے۔ ہمیں دیگر شعبوں میں بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر کو نکھارنے کی ضرورت ہے۔ یقینا ہمارا اولین مقصد حصولِ امن ہے مگر حقیقی امن محض اسلحے کے بل پر حاصل نہیں ہو سکتا‘ اس کیلئے ترقی کے ہمہ جہت تصور اور دنیا کے جدید تقاضوں کو اپنانے کی ضرورت ہے ۔ معاشی اور سائنسی میدان میں برتری کے بغیر طاقتور ملکوں کی برابری کرنا ممکن نہیں۔ اس ضمن میں جاپان اور شمالی کوریا ایک بیّن مثال کا درجہ رکھتے ہیں‘ اول الذکر نے اپنی معاشی طاقت کے زور پر دنیا میں اپنا برتر مقام حاصل کیا جبکہ موخر الذکر ایٹمی طاقت کا حامل ہونے کے باوجود دنیا سے کٹا ہوا ہے۔ آج کی دنیا میں مقابلہ علم‘ تحقیق اور معیشت جیسے شعبوں میں ہیں۔ اگرچہ دفاعی طاقت سے انکار ممکن نہیں کہ یہی وہ محفوظ ماحول فراہم کر سکتی ہے جس میں علم اور ترقی کو نمو پانے کا موقع مل سکتا ہے مگر ایک جوہری طاقت کے اور بھی بہت سے لوازمات ہیں۔ کوئی قوم علمی و سائنسی میدان میں کہاں کھڑی ہے‘ اس کی معیشت کتنی مضبوط ہے‘ افرادی قوت دنیا کو درپیش جدید چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے کس حد تک تیار ہے‘ یہی پیمانے اب کسی ملک کے مضبوط دفاع کے ضامن متصور ہوتے ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement