معاشی حقائق اور توقعات
وفاقی و زیر خزانہ اسحاق ڈارکے بقول ملکی معیشت بجلی کا سوئچ نہیں کہ آن کرنے سے سب اچھا ہو جائے۔ اپنے گزشتہ دورِ وزارت کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہمیں اُس دور میں بھی وقت لگا تھا لیکن چیزیں درست ہو گئیں۔ وزیر خزانہ کے بیان میں خوش امیدی کی جھلک ہے‘ مگرخوش امیدی ہی سب کچھ نہیں‘ چیلنجز سے نمٹنے کیلئے کچھ دیگر لوازمات بھی ضروری ہیں‘ اور چیلنج اگر معیشت کو مستحکم کرنے کا ہو تو حقائق کی زمین پر قدم بہ قدم آگے بڑھنا پڑتا ہے۔ وزیر خزانہ معیشت کی موجودہ صورتحال کو 2013ء کے تناظر میں دیکھتے اور بیان کرتے ہیں اور یہ توقع رکھتے ہیں کہ جس طرح اُس وقت انہیں معیشت کو استوار کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی اس بار بھی ہو گی۔ مگر حقائق کے عالم میں چیزوں کو دیکھا جائے تو 2013 ء اور 2023 ء کے حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ 2013 ء میں پاکستان کو یقینا بجلی کے بحران کا مسئلہ درپیش تھا جس کیلئے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بڑے فیصلے کرنا پڑے؛ تاہم عالمی صورتحال‘ جو معیشت پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے‘ آج کی نسبت بڑی حد تک مختلف تھی۔ پاک چین اقتصادی راہداری اُس دور کا سب سے اہم ترقیاتی و اقتصادی منصوبہ پاکستانی معیشت کیلئے بڑی تقویت کا انجن بن گیا۔ یوں مالی سال 2017 ء تک پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو پانچ فیصد سے تجاوز کر گئی‘ جو نو سال کی بلند ترین سطح تھی‘ جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر 23/24ارب ڈالر تک پہنچ گئے‘ افراطِ زر کی شرح چار سے پانچ فیصد تھی اور پاکستان کا شمار جنوبی ایشیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں ہونے لگا تھا۔مگراب کی صورتحال یہ ہے کہ جی ڈی پی کی نمو0.3 فیصد پر آ چکی ہے جو 2020 ء کے کورونا کی عالمگیر وبا والے سال کے استثنا کے ساتھ1970 ء کے بعد ملک کی کم ترین شرحِ نمو ہے۔زرمبادلہ کے ذخائر بھی کم ترین سطح پر ہیں جبکہ افراطِ زر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ ملکی معیشت کی یہ غیر معمولی صورتحال غیر معمولی اقدامات کا تقاضا کرتی ہے‘ مگر یہ کام صرف اشیا ئے ضروریہ پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھا نے یا انفرادی آمدنی اور صنعت و کاروباری سرگرمیوں پر محصولات میں اضافہ کرنے سے ممکن نہیں‘ اس کیلئے دیرپا اقدامات کرنا ہوں گے۔ حکومت کے پاس 2013 ء سے 2017ء تک کے دورانیے کی مثال موجود ہے‘ اس عرصے کو موجودہ دور سے جو حقیقت ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اُس دور کی حکومت کے پاس اتنا وقت تھا کہ وہ بڑے فیصلے لینے‘ منصوبے شروع کرنے اور ان کے ثمرات اٹھانے کی منصوبہ بندی کر سکتی تھی۔ آج کے حالات میں سب سے بڑی مشکل ہی یہ ہے کہ حکومت کی آئینی ٹرم آخری برس میں ہے۔ اگلے کچھ روز میں قومی اسمبلی اپنا آخری بجٹ پیش کر دے گی اور دو ماہ بعد اسمبلی کی آئینی مدت تکمیل کو پہنچ جائے گی۔اپنی ٹرم کے اختتام کے کنارے پر کھڑی حکومت کیلئے عملاً بڑے اقدامات ممکن نہیں‘ دوسری جانب ملک کے سیاسی حالات ایسے ہیں کہ بے یقینی اور عدم استحکام کے اندیشے کم ہونے کا نام نہیں لیتے۔ اس صورتحال میں معیشت کے استحکام کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ معاشی استحکام سیاسی استحکام سے مشروط ہے ؛ چنانچہ ضروری ہے کہ اس جانب توجہ دی جائے۔ضروری ہے کہ انتخابات اپنے وقت پر ہوں اور آئینی تقاضوں کے مطابق شفاف اور غیر جانبدار ہوں اور انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت سیاسی استحکام کو پہلی ترجیح بنا کر چلے۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار کے یہ الفاظ یقینا قابل غور ہیں کہ جب بھی پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے تو کوئی نہ کوئی سانحہ ہو جاتا ہے۔ وزیر خزانہ کی اس تشویش میں کوئی شبہ نہیں‘ قومی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ خواب بننے نہیں پاتا کہ بکھر جاتا ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنی تاریخ اور المیوں سے سیکھیں اور یقینی بنائیں کہ پاکستان سانحات سے محفوظ رہ کر آگے بڑھتا چلا جائے۔