اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

علاقائی تجارت کی حوصلہ افزائی

وزارتِ تجارت نے روس‘ ایران اور افغانستان کے ساتھ بزنس ٹو بزنس بارٹر ٹریڈ کی اجازت دے دی ہے۔ علاقائی ممالک کے ساتھ تجارتی فروغ کیلئے یہ ایک قابلِ قدر اقدام ہے۔ دنیا بھر میں ایسے علاقائی بلاک موجود ہیں جن کی کل تجارت کا 70سے 80 فیصد علاقائی اور ذیلی علاقائی تجارت پر مشتمل ہے‘ مگر پاکستان کی علاقائی تجارت ممکنہ استعداد سے بہت کم ہے۔ گزشتہ مالی سال کے دوران ملک کی مجموعی برآمدات پونے 32 ارب ڈالر کے قریب تھیں مگر ان میں سے نو علاقائی ممالک (چین، ایران‘ افغانستان‘ بنگلہ دیش‘ سر ی لنکا‘ نیپال‘ بھارت‘بھوٹان‘ مالدیپ) کو فروخت کی گئی مصنوعات کا مالیاتی حجم صرف ساڑھے چار ارب ڈالر کے برابر تھا‘ جبکہ ان ممالک سے پاکستان کی مجموعی درآمدات 18 ارب ڈالر کے قریب تھیں۔ ایک اندازے کے مطابق علاقائی ممالک کے ساتھ پاکستانی تجارت 50 ارب ڈالر تک بڑھائی جا سکتی ہے۔ مگر یہ اسی صورت ممکن ہے جب علاقائی ممالک کے ساتھ تجارتی اور عوامی روابط مضبوط ہو ں اور تجارت کیلئے سہولتیں پیدا کی جائیں۔جنوبی ایشیائی خطے میں علاقائی روابط کے فروغ کیلئے اس خطے کی سرخیل علاقائی تنظیم ’’سارک‘‘ سے بہت امیدیں وابستہ تھیں مگر یہ تنظیم علاقائی تجارتی روابط کے فروغ میں حسبِ توقع نتائج فراہم نہیں کر سکی اور نہ ہی جنوبی ایشیائی اقوام میں وہ جڑت پیدا کر سکی جس کی سارک سے امید کی جاتی تھی‘ تاہم شنگھائی تعاون تنظیم جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا میں کنیکٹوٹی کے مؤثر پلیٹ فارم کے طور پر نمایاں ہونے کی پوری اہلیت رکھتی ہے۔اس طرح علاقائی ممالک میں قربت‘ تجارتی فروغ اور علاقائی تعاون میں اضافے کی بہت امیدیں اس تنظیم کے ساتھ وابستہ ہیں۔ روس‘ ایران اور افغانستان کے ساتھ اشیا کے بدلے اشیا کی تجارت اور حال ہی میں روس اور پاکستان میں براہِ راست بحری جہازوں کی آمدورفت کی سہولت پاکستان‘ روس اور ایران کے مابین نئے تجارتی افق کو روشن کر رہی ہے۔ ایران اور افغانستان پاکستان کے دیوار بہ دیوار ہمسائے ہیں مگر ان ممالک کے ساتھ باقاعداور بے قاعدہ تجارت میں حدِ فاصل قائم نہیں کی جا سکی‘ نہ ہی ایک دوسرے کے پیداواری وسائل اور صلاحیتوں سے کما حقہٗ فائدہ اٹھایا جاسکا ہے۔ تجارتی رکاوٹوں اور قواعد و ضوابط کی مشکلات کا حل یہاں بے قاعدہ تجارت کے فروغ کی صورت میں نکالا جاتا رہا جس کے نتیجے میں سمگلنگ فروغ پاتی رہی؛ تاہم بارٹر ٹریڈ کی اجازت ملنے سے کافی امید ہے کہ اشیا کی خرید و فروخت کا عمل باقاعدہ اور قانونی صورت اختیار کرے گا اور سمگلنگ کے دھندے میں کمی واقع ہو گی۔ جہاں تک روس کا تعلق ہے تو روس ایک بڑی تجارتی منڈی اور توانائی کا ایک بہت بڑا برآمد کنندہ۔ پاکستان اور روس میں توانائی‘ مشینری‘ زرعی ترقی کے وسائل اور خوراک کے شعبے میں تجارت کی کافی گنجائش موجود ہے‘ مگر ہم اس اہم منڈی سے بھی صحیح طرح استفادہ نہیں کر سکے، مگر یہ مہر بند تجارتی منڈی بھی حال ہی میں پاکستان کیلئے کھلتی ہوئی نظر آتی ہے۔ پاکستان روس سے خام تیل درآمد کررہا ہے جبکہ ڈائریکٹ شپنگ کی سہولت ملنے سے پاکستانی اور روسی تاجروں کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی تعلق بڑھانے کی قابلِ ذکر آسانی پیدا ہو گئی ہے۔ ایران اور روس جیسے توانائی کے بہت بڑے پروڈیوسرز کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کی اجازت پاکستان کے گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ میں کمی کا ایک اہم سہارا ثابت ہو سکتی ہے۔ بارٹر ٹریڈ کے اجازت نامے کے مطابق روس سے گندم،  پٹرولیم آئل، ایل این جی، ایل پی جی، کھادیںاور مشینری منگوائی جاسکتی ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ یہ اقدامات علاقائی ممالک کے ساتھ پاکستان کے تجارتی حجم میں اضافہ کرے گا اور ملکی صنعتوں اور تاجروں کیلئے نئے امکانات سامنے آئیں گے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement