اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

ماحولیاتی آلودگی کے چیلنجز

عالمی یومِ ماحولیات کی مناسبت سے وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے پیغام میں کہا کہ پاکستان پلاسٹک کی آلودگی کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے پلاسٹک کے مرحلہ وار خاتمے کیلئے پُرعزم ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کثیر جہتی مسئلہ ہے مگر پلاسٹک آلودگی اپنے نقصانات کے اعتبار سے سر فہرست آتی ہے ؛ چنانچہ اس سال یومِ ماحولیات کا مرکزی خیال پلاسٹک آلودگی کے انسداد پر مبنی تھا۔ دنیا کس شدت سے پلاسٹک آلودگی کی لپیٹ میں ہے اس کے شواہد ہم اپنے ماحول میں بآسانی دیکھ سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارۂ ماحولیات کی رپورٹ کے مطابق ہر سال 40 کروڑ ٹن سے زیادہ پلاسٹک تیار ہوتا ہے‘ جس میں سے نصف صرف ایک بار استعمال کیا جاتا ہے‘ جبکہ اس تیار کیے گئے پلاسٹک کا 10 فیصد سے بھی کم ری سائیکل کیا جاتا ہے۔ پلاسٹک کی ایک بڑی مقدار زہریلے دھویں کے ذریعے فضائی آلودگی کا سبب بن رہی ہے‘ پلاسٹک کے اجزا زمین میں شامل ہو کر زرخیزی اور پیداواری قوت میں کمی کا سبب بن رہے ہیں جبکہ کوڑے کے بیشتر حصے کی صورت میں یہ ایک مستقل دردِ سر ہے؛ تاہم یہ بھی سچ ہے کہ فی زمانہ انسانی زندگی سے پلاسٹک کو یکسر خارج کرنا ممکن نہیں‘ البتہ توازن اور احتیاط سے اس مسئلے کو کم ضرور کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں پچھلے کچھ عرصے کے دوران ہمارے ملک میں جو بہتر قدم اٹھایا گیا اس میں پلاسٹک کی تھیلیوں کے استعمال میں کمی قابلِ ذکر ہے۔ لاہور سمیت کئی بڑے شہروں کی اکثر دکانوں پر یہ پابندی مستقل نافذ ہے جس سے پلاسٹک کے بیجا پھیلاؤ میں یقینا کسی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ اس پابندی کو ملک بھر میں‘ یا کم از کم ہر بڑے شہر میں زیادہ سنجیدگی سے نافذ کر نے کی ضرورت ہے۔ مگر ہمارا ماحولیاتی المیہ صرف پلاسٹک کی آلودگی تک محدود نہیں‘ فوسل فیول کے بے تحاشا استعمال اور کیمیائی آلودگی کے اثرات سے ہم اپنے ماحول کا غیر معمولی نقصان کر چکے ہیں۔ ملک ِعزیز ماحولیاتی خرابیوں سے شدید متاثر ممالک میں سر فہرست ہے۔ قراقرم کے سلسلے سے بحیرہ عرب کے ساحلوں تک ماحولیاتی آلودگی پاکستان کی فضاؤں‘ زمینوں اور پانیوں کو لپیٹ میں لیے ہوئے ہے‘ مگر اس المیے کی جانب توجہ اور بچاؤ کے جس قدر سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے وہ نظر نہیں آتے۔ ہم ماحولیاتی آلودگی کے خلاف اقدامات میں عبوری اقدامات پر عمل پیرا ہیں جیسا کہ سال کے وہ مہینے جب لاہور سمیت بڑے شہروں میں آلودہ ہوا میں سانس لینا دوبھر ہو جاتا ہے تو ہماری توجہ فضائی آلودگی کی روک تھام کی جانب ہوتی ہے اور ہنگامی طور پر دھویں کے پھیلاؤ کے خلاف کارروائیاں شروع کی جاتی ہیں۔مگریہ حکمت عملی اپنے آپ میں ایک شہادت ہے کہ ہم یا تو ماحولیاتی آلودگی کے حقائق کو سمجھنے سے قاصر ہیں یا جان بوجھ کر اس سے نظریں چرا ئے ہوئے ہیں۔ فضائی آلودگی میں سب سے بڑا حصہ ٹریفک کے دھویں کا ہے اور اگر شور کی آلودگی کی بات کی جائے تو یہاں بھی ٹریفک ہی ذمہ دار قرار پاتی ہے‘ مگر ٹریفک سے جڑی آلودگی پر قابو پانے کیلئے ذمہ دارانہ اقدامات نہیں کیے جا رہے۔ اس طرح ہم نہایت خطرناک کیمیائی اجزا کے حامل دھویں سے اپنی فضا کو ناقابلِ اصلاح حد تک خراب کر رہے ہیں۔ اگر مٹی اور پانی کی بات کی جائے تو وہاں بھی عدم توجہی سے نقصان کا یہی درجہ پایا جاتا ہے۔ موجودہ اور آنے والی نسلوں کیلئے صاف ستھرا ماحول فراہم کرنا پاکستان کی نسلِ حاضر ِ کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے‘ مگر اس ذمہ داری کے سلسلے میں غیر سنجیدگی ظاہر و باہر ہے۔ اس کی بڑی وجہ ماحولیاتی خرابیوں کے منفی اسباب کے نقصانات سے عدم آگاہی اور لاعلمی ہے‘ اس کیلئے ضروری ہے کہ ماحولیات کے حوالے سے عوامی آگاہی کے مؤثر اقدامات کیے جائیں۔ صرف عالمی یوم ماحولیات پر بیان جاری کر دینے سے ماحولیات کی کوئی خدمت نہیں ہو سکتی‘ اس کیلئے سنجیدگی اور مستقل مزاجی سے اقدامات کرنا ہوں گے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement