معاشی استحکام کے لیے انتخابات
ایشیائی ترقیاتی بینک کی ایشین ڈویلپمنٹ آؤٹ لُک میں رواں مالی سال کیلئے پاکستان کی معیشت کی شرحِ نمو 1.9 فیصد جبکہ مجموعی مہنگائی کی شرح 25 فیصد تک رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کاملکی معیشت کی بحالی کے امکانات اجاگر کرنا اُمید افزا ہے لیکن ان امکانات کو رواں سال ملک میں عام انتخابات اور معاشی اصلاحات کے ایجنڈے پر عملدرآمد سے مشروط کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں منتخب سیاسی حکومت کے قیام سے معیشت پر اعتماد بحال ہو گا جس سے سرمایہ کاری میں اضافہ ممکن ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں سیاسی عدم استحکام کو اعتماد کی بحالی‘ معاشی اصلاحات اور ملکی ترقی کی راہ میں حائل ایک رکاوٹ اور خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ ملکی اقتصادیات جو اس وقت شدید بحران کا شکار ہے محض لیپا پوتی سے ٹھیک نہیں ہو سکتی۔ اس کیلئے اصلاح کے جامع اقدامات ضروری ہیں۔ اس کام کیلئے جس مینڈیٹ کی ضرورت ہے‘ وہ نگران حکومت کے بس کا روگ نہیں بلکہ اس کیلئے ایک ایسی منتخب سیاسی حکومت درکار ہے جو مشکل فیصلے لے سکے اور جس کے فیصلوں پر عوام کو اعتبار و اعتماد ہو۔ پاکستان کی اقتصادیات پر سیاسی عدم استحکام کس حد تک اثر انداز ہوتا ہے‘ یہ گزشتہ ڈیڑھ‘ دو سال کے عرصے میں واضح ہو چکا ہے۔ مالی سال 2022ء میں پاکستانی معیشت کی شرحِ نمو 6 فیصد کے لگ بھگ تھی اور مالی سال 2023ء میں اس کا ہدف دو فیصد رکھا گیا مگر یہ 0.29 فیصد کے لگ بھگ رہی۔ اگرچہ اس میں ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب کے فیکٹر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا مگر یہی سال سیاسی تاریخ کا سب سے ہنگامہ خیز سال بھی تھا اور معاشی خرابی کے بیشتر محرک سیاسی عدم استحکام ہی میں پہناں ملتے ہیں۔ امر واقع یہ ہے کہ اگر کسی معاشرے میں سیاسی طور پر استحکام نہ ہو تو سرمایہ کار اپنا ہاتھ کھینچ لیتے ہیں اور رفتہ رفتہ اقتصادی حالت دگرگوں ہوتی چلی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی عدم استحکام نے کرنسی کی گراوٹ کے عمل کو جو مہمیز دی‘ وہ بھی عیاں ہے۔ اپریل 2022ء کے مقابل اپریل 2023ء میں‘ محض ایک سال کی مدت میں ڈالر کی قدر میں سو روپے سے زائد کا اضافہ ہوا اور ملکی تاریخ میں بارہ ماہ کے عرصے میں ملکی کرنسی کی قدر میں 56 فیصد سے زائد کی گراوٹ ہوئی۔ اس دوران دوست ممالک بالخصوص چین کی جانب سے بھی سیاسی استحکام اور قومی اتفاقِ رائے کی ضرورت پر زور دیا گیا کہ سیاسی استحکام ہی قومی اتفاقِ رائے کی راہ ہموار کرتا اور قومی اتفاق رائے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اپنی جانب مائل کرتا ہے۔ چین کے ایک جریدے نے گزشتہ ماہ پاکستان کی معیشت پر جو تفصیلی جائزہ پیش کیا‘ اس میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ سیاسی عدم استحکام سے پاکستانی معیشت کو سالانہ بنیادوں پر جی ڈی پی کے دس فیصد تک نقصان ہو رہا ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے قبل آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ میں بھی دگرگوں معاشی حالات کو سیاسی حالات سے منسوب کیا گیا تھا۔ عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک کے تجزیے ایک طرف‘ ایک عام آدمی بھی یہ بات بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ اس وقت ملکی معیشت میں تنزل کی جو کیفیت ہے یہ سراسر بے یقینی کا نتیجہ ہے۔ جب سیاسی عدم استحکام آخری حدوں کو چھو رہا ہو تو افواہوں کو بھی جگہ بنانے کا موقع مل جاتا ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انتخابات کا انعقاد کوئی غیر ملکی مطالبہ نہیں بلکہ ہمارا آئینی و جمہوری تقاضا بھی ہے۔ ملکی آئین سیاسی حکومت کی عدم موجودگی کو حد نوے دن کی مہلت دیتا ہے اور تمام اداروں کو اس مدت میں الیکشن کمیشن کی معاونت سے ملک میں نئی حکومت کے قیام کا پابند بناتا ہے۔ ایک منتخب سیاسی حکومت نگران انتظامیہ کے مقابلے میں بڑے فیصلوں کرنے میں کہیں زیادہ بااختیار اور عالمی سطح کے معاہدوں میں بہتر ساکھ کی حامل ہوتی ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی رپورٹ ہمیں غلطیوں کو سدھارنے کی جانب متوجہ کرتی ہے۔