اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

مسائل کا حل اسوۂ حسنہ کی پیروی میں

آج پاکستان بھر میں میلاد النبیﷺ کا جشن منایا جا رہا ہے۔ یہ وہ بابرکت و متبرک دن ہے جب فخرِ موجودات، رحمۃ للعالمین، خاتم الانبیا و المرسلین محمد رسول اللہﷺ دنیائے ظہور میں جلوہ افروز ہوئے۔ آپﷺ کی ولادتِ باسعادت بنی نوع انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کا وہ احسانِ عظیم ہے جس کی برکات کا سلسلہ تاابد قائم رہے گا۔ آپﷺ جس سماج میں تشریف لائے وہ اخلاق و اقدار کے اعتبار سے اتھاہ گہرائیوں میں گرا ہوا تھا۔ برسہا برس کی جنگ و جدل اور قبائلی مخاصمت کی وجہ سے عدم تحفظ کا احساس انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ انسانی جان‘ عزت اور حقوق کے تحفظ کا کوئی تصور تک باقی نہیں بچا تھا۔ جہالت و ضلالت میں گھری ہوئی انسانیت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسولﷺ کی ذات بابرکات سے وہ نورِ علم و حکمت عطا فرمایا جس سے جہالت کی تاریکیاں ختم ہوئیں اور انسان پستیوں سے اٹھ کر شرف و تکریم کی بلندیوں پر متمکن ہوا ۔وہ عرب معاشرہ‘ جو قبائلی عصبیت اور نسلی تفاخر کا عنوان سمجھا جاتا تھا‘ دیکھتے ہی دیکھتے تکریمِ انسانی کی معراج پر فائز ہو گیا اور علم و ہنر اور حکمت کے میدان میں بھی چوکڑیاں بھرنے لگا۔ ’’کسی کالے کو کسی گورے پر یا کسی گورے کو کسی کالے پر‘ کسی عجمی کو کسی عربی پر یا کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضلیت نہیں‘ عنداللہ معیارِ فضیلت محض تقویٰ ہے‘‘ یہ اصول اس نظام کی بنیاد بنا جس نے نہ صرف حقوقِ انسانی کا نیا تصور دیا بلکہ پسماندہ طبقات‘ مثلاً خواتین‘ غلاموں اور پست سماجی حیثیت کے لوگوں کو برابری کا درجہ دے کر سماج میں ایسی تبدیلی برپا کی جس کا اُس زمانے میں کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ مدینہ منورہ کی ریاست کی بنیاد انہی اصولوں پر رکھی گئی تھی اور بجا طور پر سیدِ دوعالمﷺ کے اسوۂ حسنہ میں ہمارے لیے ہر شعبۂ حیات سے متعلق رہنمائی موجود ہے۔ نبی آخر الزماںﷺ پر تکمیلِ رسالت ہوئی تو صرف دینی معاملات یعنی عقائد و رسوماتِ دینیہ ہی کو اولیت نہیں دی گئی بلکہ جا بجا درجۂ ایمان کو معاشرتی فلاح سے منسلک کیا گیا ہے، مثلاً فرمایا گیا: (مفہوم) تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا‘ جب وہ خود تو پیٹ بھر کر کھائے اور اس کے پہلو میں اس کا پڑوسی بھوکا رہے۔ غرضیکہ اسلام صرف نفسی اصلاح پر توجہ کو اخروی نجات کا ذریعہ نہیں بناتا بلکہ معاشرے کی تمام اکائیوں کو یکساں مضبوط بنانے پر زور دیتا ہے۔ آج ہم نفانفسی اور آپس کے لڑائی جھگڑے اور مناقشوں میں اس طرح الجھے ہوئے ہیں کہ سیرت النبیﷺ کی واضح اور روشن تعلیمات کو بھی فراموش کر دیا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے مسلمان کو مسلمان کابھائی قرار دیا‘ جو نہ اس پر ظلم کرتا ہے‘ نہ اس کو رسوا کرتا ہے اور نہ ہی اس کو حقیر جانتا ہے مگر ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے‘ رسوا و بدنام کرنے اور طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے کی روش جڑوں تک سرایت کر چکی ہے۔ آج جہاں دل میلادالنبیﷺ کی خوشیوں سے معمور اور سرشار ہے‘ وہاں ملول اور غمگین بھی ہے۔ غمگین اس لیے ہم بطور مسلمان اور بطور امہ ان تمام فضیلتوں اور اوصاف سے محروم ہیں جو ایک مسلم کا خاصا ہیں۔ آج کا دن ہمارے لیے غور و فکر کا ایک مقام بھی ہے کہ ہماری زندگیاں سیرت النبیﷺ کی راہِ روشن سے دور کیوں ہیں؟ بطور امت ہم دنیا میں کہاں کھڑے ہیں؟ علم و ہنر اور سائنس و ٹیکنالوجی میں ہمارا کیا مقام ہے؟ نبی کریمﷺ کا یومِ ولادت بہترین موقع ہے کہ ہم سب ان معاملات پر غور کریں اور خود کو متحد و منظم بنانے کے لیے آج ہی سے کاوشیں شروع کر دیں۔ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے ہمیں اپنے آپ کو اور نظام ریاست کو سیرتِ طیبہ کے اصولوں کے مطابق ڈھالنا ہو گا۔ اگرچہ بدرجہ اتم یہ ذمہ داری قیادت پر عائد ہوتی ہے مگر سماج کا ہر رکن بھی اپنی سطح پر اس کا ذمہ دار و مکلف ہے ۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں