اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

غزہ لہو لہو

غزہ کے حوالے سے یہ اطلاعات تشویش میں اضافہ کردینے والی ہیں کہ اسرائیلی ٹینکوں نے متعدد ہسپتالوں کا گھیراؤ کیا ہوا ہے۔ غزہ کا صرف شہری انفراسٹرکچر اور عام آدمی ہی اس جارحیت کا سامنا نہیں کر رہا‘ مریض اور زخمی بھی مسلسل بے رحمی کے نشانے پر ہیں۔ غزہ کے ہسپتالوں پر اسرائیل اب تک 270 سے زائد حملے کر چکا ہے‘ 72 میں سے 51 پرائمری ہیلتھ کیئر کے کلینک بند ہو چکے ہیں جبکہ 35 ہسپتالوں میں سے 18 براہِ راست بمباری اور ایندھن نہ ملنے کی وجہ سے کام بند کر چکے ہیں۔ غزہ کی پٹی میں اپنی نوعیت کا واحد نفسیاتی ہسپتال بھی اب اپنے مریضوں کا علاج کرنے کے قابل نہیں رہا۔ مسلسل جارحیت زدہ علاقے کے لوگ شدید نفسیاتی صدمے کا شکار ہوتے ہیں‘ غزہ کے بم زدہ تعمیراتی ڈھانچوں سے زندہ بچا لئے گئے مسلسل کانپتے اور چیختے بچوں کی وڈیوز سب نے دیکھی ہوں گی‘ مگر ان بچوں کیلئے‘ جن میں سے اکثر کے خاندانوں کے بیشتر افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں‘ کوئی نفسیاتی سہارا باقی نہیں بچا۔ غزہ کا اکلوتا کینسر ہسپتال بھی کئی روز ہوئے اسرائیلی بمباری کا نشانہ بننے کے بعد کام جاری رکھنے کے قابل نہیں رہا۔ ہیلتھ کیئر سسٹم پر اس قدر وحشیانہ حملوں کی حالیہ تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ جنیوا کنونشن یا دیگر عالمی قواعد اور انسانی آداب کا کسی قدر پاس کیا جاتا تھا‘ یہاں تک کہ دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے بھی ہسپتالوں کو نشانہ بنانے کے واقعات عام نہیں‘ مگر اسرائیل کے جارحانہ اقدامات نے دنیا کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ فلسطینی وزارتِ خارجہ نے تو اس صورتحال کو اسرائیل کی جانب سے عالمی برادری کو بلیک میل کرنے اور فلسطینیوں کو غزہ کے جنوبی علاقوں کی طرف ہجرت پر مجبور کرنے کا ہتھکنڈا قرار دیا ہے۔ یقینا یہ مقاصد بھی ہوں گے مگر اسرائیل غزہ کے شہریوں کے خلاف جس بربریت سے کام لے رہا ہے یہ اپنے آپ میں ایک ثبوت ہے کہ اسے عالمی قواعد و قوانین کی کوئی پروا نہیں اور اس صورتحال پر خاص طور پر مغربی ممالک کی جانب سے مؤثر مؤقف کا سامنے نہ آنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل کو اس امر کا یقین دلایا گیا ہے کہ انسانیت کے خلاف مظالم اور بھیانک جنگی جرائم پر اُس سے کوئی باز پرس نہیں ہو گی۔مغرب کا دہرا معیار ناانصافی کے کس بھیانک درجے کو پہنچ چکا ہے‘ غزہ پر ایک ماہ سے جاری اسرائیلی بربریت نے اس کے ٹھوس اور ناقابلِ تردید ثبوت مہیا کر دیے ہیں۔دنیا اہلِ مغرب کو انسانی حقوق کے پاسدار کے طور پر جانتی تھی مگر غزہ پر اسرائیل کے وحشیانہ حملوں نے واضح کر دیا ہے کہ جنیوا کنونشنز اورانسانی حقوق کا پرچارمحض ایک ڈھونگ تھا۔ ہسپتالوںاور مریضوں پر بمباری اگر اسرائیل کی جانب سے بلیک میلنگ ہے تو اس میں وہ سبھی برابر کے شریک ہیں جو یوں تو انسانی حقوق کیلئے ہمہ وقت رطب اللسان رہتے ہیں اور اس مقصد سے بڑے بڑے ادارے بھی قائم کر رکھے ہیں مگر غزہ کی غیر عسکری‘ سول آبادی کے خلاف اسرائیل کے جرائم پر رسمی‘ سطحی اور بے ضرر تبصروں سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ یہ رویہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ انسانی حقوق اور انسانی زندگی کا تحفظ یقینی بنانے کے ضابطوں کی تشریح کسی قدر خود غرضی پر مبنی ہے۔گویا جنگی جرم وہ ہے جو اہلِ مغرب کو جنگی جرم دکھائی دے اور انسانیت کے خلاف ظلم وہ ہے جسے وہ ظلم سمجھیں۔مفادات کے تابع ایسی دوغلی پالیسی سے عالمی امن و امان اور یکساں مواقع کی توقع عبث ہے۔ جنگوں کا دور گزر جاتا ہے‘ تباہی کی داستانیں پرانی ہو جاتی ہیں مگر ان سے حاصل ہونے والا سبق تاریخ کے صفحوں اور نسلوں کی یادداشتوں میں محفوظ رہ جاتا ہے۔ غزہ کے خلاف اسرائیل کی یہ جنگ بھی جلد یا بدیر انجام کو پہنچے گی‘ فلسطینیوں کے جسم کے زخم وقت کے ساتھ بھر جائیں گے‘ مگرنفسیاتی زخم بہت گہرے ہوتے ہیں اوریہ واقعات آنے والی نسلوں کو سوچنے پر مجبور کریں گے اور جھنجوڑتے رہیں گے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں