شدت پسندی کے خطرات اور افغانستان
نگران وزیر داخلہ سرفراز احمد بگٹی نے بنوں میں سکیورٹی فورسز کی گاڑی پر خودکش حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سکیورٹی فورسز دہشتگردی کے مکمل خاتمے کیلئے پرعزم ہیں اور سکیورٹی فورسز اور شہریوں پر حملے کرنے والے دہشت گرد کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ دہشتگردی کے اس واقعے میں بھی ایک افغان شہری ملوث تھا ۔رواں سال یہ 16واں افغان باشندہ تھا جو پاکستان میںدہشتگردی میں ملوث پایا گیا۔ یہ واقعات کئی حقائق سے پردہ اٹھاتے ہیں۔اس سے جہاں افغان شہریوں کے دہشتگردی میں ملوث ہونے کے شواہد کی تصدیق ہوتی ہے وہیں افغان شناختی کارڈ پر ملک میں داخل ہونے والے افغانوں کی جانب سے سکیورٹی خدشات بھی واضح ہوتے ہیں‘ نیز غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کے انخلااور افغان شہریوں کیلئے کارآمد پاسپورٹ اور پاکستانی ویزا لازمی قرار دینے کی ضرورت و اہمیت سمجھ میں آتی ہے۔ جس طرح افغان باشندوں کو سرحد پار کرکے پاکستان در آنے کی سہولت میسر تھی اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ اگر ہمسایہ ملک کے حالات اجازت دیتے ہوں اور دونوں ملک اتفاق کریں توشہریوں کی آمدورفت کی شرائط میں نرمی کی مثالیں تو ملتی ہیں‘ مگر افغانستان جیسے کسی ملک کیلئے بے روک ٹوک آمدو رفت کی اجازت سمجھ سے بالاتر بندوبست تھا۔ اس کا جو نتیجہ برآمد ہوتا آیا ہے اور ہو رہا ہے اس کے سوا کیا امید کی جاسکتی تھی؟ حیرت ہے کہ ان ظاہر و باہر حقائق کے باوجود ماضی کی حکومتوں نے اس معاملے میں غیر ضروری طور پر لیت و لعل سے کام لیا اور ملک کو افغان شہریوں یا افغانستان میں مقیم نامعلوم شہریتوں ‘ پس منظر اور کردار کے افراد کیلئے کھلا چھوڑ دیا۔اس بناپرافغان شہریوں کیلئے پاکستان داخلے کیلئے ویزے کی شرط اور پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کے انخلا کی پالیسی خوش آئند ہے۔ یہ نہ تو کسی نسلی تفریق یا تعصب پر مبنی ہے اور نہ اس کے کوئی اور مقاصد ہیں۔ بنیادی طور پر یہ پاکستان کی قومی سلامتی کا تقاضا ہے اور اس کے ناقابلِ تردید دلائل دہشتگردی اور جرائم کے ان واقعات کی صورت میں موجود ہیں جن میں افغان شہریوں کے ملوث ہونے کے شواہد سامنے آئے ہیں۔ اس سلسلے میں افغانستان کی عبوری حکومت کا مؤقف جو بھی ہو پاکستان کیلئے اس کی کوئی اہمیت نہیں‘ پاکستان کیلئے بنیادی ترجیح ہمارا قومی مفاد ہے ‘ اور اس کیلئے افغانستان سے بغیر ویزا نقل و حرکت کا سلسلہ بند کرنا اور ملک میں مقیم غیر قانونی افغان شہریوں کا انخلا ضروری ہے۔قومی سلامتی کے اس ضروری تقاضے کے ساتھ ساتھ مغربی سرحد سے دراندازی کی کوششوں کی روک تھام پر توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ ایسے حالات میں غیر ریاستی عناصر کی دراندازی کے واقعات میں اضافہ یا اس کی کوشش کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کی افغانستان سے ملنے والی سرحد جس کی لمبائی قریب ڈھائی ہزار کلومیٹر ہے ‘ زمینی صورتحال اور طوالت کی وجہ سے غیر محفوظ ہے۔ سرحدی باڑ اور نگرانی کے خصوصی انتظامات سے دراندازی کی کوششوں کو روکنے میں بہتری آئی ہو گی مگر اس کام کو مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے تا کہ افغانستان کی جانب سے دراندازی اور دہشتگردوں اور سمگلروں کی نقل و حرکت کے سلسلے پر یقینی حد تک قابو پایا جاسکے۔ وطنِ عزیز کے پاسبانوں نے قومی سلامتی کے گمبھیر چیلنجز پر قابو پایا ہے اور جو چیلنج درپیش ہے اس سے نمٹنے کی بہتر پوزیشن میں ہیں۔ دہشتگردوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کے کامیاب آپریشن اس امر کا ثبوت ہیں کہ دہشتگردوں کیلئے بدستور پاکستان کی سرزمین تنگ ہے۔ اگر چہ پچھلے کچھ عرصہ کے دوران ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا مگر اس میں افغانستان کے داخلی حالات کا خاطر خواہ کردار ہے ‘ تاہم سرحد پر سکیورٹی کی مزید ٹھوس تہہ‘ افغانستان کیلئے ویزا رجیم اور غیر قانونی افغان باشندوںکے انخلا کی پالیسی سے آنے والے وقت میں بہتر نتائج کی توقع ہے۔