کھاد کا مسئلہ برقرار
حکومت کے ان دعووں کے برعکس کہ ملک میں طلب سے زیادہ یوریا کھاد موجود ہے‘ تاحال کھاد کی سرکاری نرخوں پر فروخت اور فراہمی یقینی نہیں بنائی جا سکی ہے۔ گوکہ حکومت کی طرف سے گندم کی فصل کے لیے کھاد کی مطلوب مقدار کو پورا کرنے کے لیے یوریا کھاد کی درآمد کے ساتھ ساتھ مقامی کھاد یونٹوں کو پوری گنجائش کے ساتھ چلائے رکھے کا عندیہ بھی دیا جا رہا ہے لیکن ذخیرہ اندوزوںکے کردار سے صرفِ نظر کیا جا رہا ہے جو نہ صرف کھاد کی مصنوعی قلت پیدا کرتے ہیں بلکہ کاشتکاروں سے من چاہے دام وصول کر کے ان کا استحصال بھی کرتے ہیں۔ اس وقت یوریا کھاد کی پچاس کلو بوری کی سرکاری قیمت 3750روپے مقرر ہے لیکن ذخیرہ اندوز ملی بھگت سے کاشتکاروں سے 5200 روپے فی بوری تک وصول کر رہے ہیں۔ کھاد کی قلت اور ڈیلروں کی منافع خوری کی اس روش کی وجہ سے گندم کی پیداوار متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ کیڑے مار ادویات کے حوالے سے بھی کسانوں کو اسی قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو رواں برس بھی گندم کا پیداواری ہدف حاصل نہیں ہو سکے گا اور مقامی ضروریات پوری کرنے کیلئے حکومت کو گندم درآمد کرنا پڑے گی۔ ضروری ہے کہ حکومت کسانوں کو نہ صرف کھادوں بلکہ دیگر زرعی مداخل کی بھی بروقت اور سرکاری نرخ ناموں کے مطابق فراہمی یقینی بنانے کیلئے بلاتاخیر اقدامات کرے۔