آزادانہ‘ شفاف اور منصفانہ انتخابات!
مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور بلوچستان عوامی پارٹی سمیت متعدد جماعتوں نے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کی تاریخ میں توسیع کا مطالبہ کیا ہے۔ الیکشن شیڈول کے مطابق امیدواروں کو کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کیلئے تین دن کا وقت دیا گیا؛ تاہم سیاسی جماعتوں نے کاغذاتِ نامزدگی کیلئے دن بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کا موقف ہے کہ کاغذاتِ نامزدگی کے ساتھ اضافی دستاویز بھی جمع کرانا ہیں جن کے حصول کیلئے بالخصوص بلوچستان میں دور‘ دراز کا سفر کرنا پڑتا ہے لہٰذا تین دن کا وقت بہت کم ہے‘ اس تاریخ میں توسیع ہونی چاہیے۔ اس حوالے سے ایک تجویز یہ ہے کہ کاغذات کی سکروٹنی کا وقت محدود کیا جا سکتا ہے اس طرح الیکشن شیڈول متاثر نہیں ہو گا۔ سیاسی جماعتوں کا یہ مطالبہ منطقی معلوم ہوتا ہے؛ تاہم اس حوالے سے حتمی فیصلہ الیکشن کمیشن ہی کو کرنا ہے‘ اگر کوئی قانونی و آئینی رکاوٹ مانع نہ ہو تو اس مطالبے کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی نے لیول پلیئنگ فیلڈ کے حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ یہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب الیکشن کمیشن کے تمام اراکین نے عام انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں کیلئے یکساں مواقع کی فراہمی پر شکوک و شبہات کے اظہار‘ انتخابی طریقہ کار‘ حلقہ بندیوں اور نشستوں کی تقسیم پر اٹھائے گئے سوالات کو مسترد کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر پر غیر متزلزل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ اس حوالے سے کوئی دو رائے نہیں کہ انتخابی عمل کی شفافیت اور غیر جانبداری ہی جمہوریت کا بنیادی تقاضا اور آئینِ پاکستان کا منشا ہے۔ انتخابی شفافیت سے پہلو تہی کرنا پورے انتخابی عمل کی ساکھ کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ میں لگ بھگ سبھی انتخابات غیر شفافیت کے الزامات کا سامنا کرتے آئے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومتی حلقوں نے اس عمل میں بے جا دخل اندازی کی اور انتخابی نتائج اپنے مفاد میں توڑے مروڑے گئے۔ فروری 2021ء میں این اے 75 سیالکوٹ میں ہونے والا ضمنی انتخاب اس حوالے سے ایک بیّن مثال ہے۔ علاوہ ازیں گزشتہ عام انتخابات کے نتائج مرتب کرنے کے عمل میں جو تکنیکی مسائل پیدا ہوئے انہوں نے پورے انتخابی عمل کو داغدارکر دیا تھا۔ انتخابی عمل پر شکوک و شبہات کی روش نے ملک عزیز میں جمہوریت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے اور اس کے سبب ہی انتخابی عمل پر اعتماد میں شدید کمی واقع ہوئی ہے۔ اگر اس ملک میں مستحکم جمہوریت چاہیے تو انتخابات کو بہرصورت آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف بنانا ہو گا۔ اس ضمن میں الیکشن کمیشن اور نگران حکومتوں‘ دونوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ انتخابی شفافیت پر اثر انداز ہونے والے عوامل کا سدباب یقینی بنائے۔ اگر ماضی کے تجربات سے سیکھتے ہوئے اصلاح کے اقدامات کیے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ انتخابات کی شفافیت اور غیر جانبداری یقینی نہ بنائی جا سکے۔ ملک کو درپیش مسائل میں سیاسی عدم استحکام اور معاشی بدحالی سرفہرست ہیں‘ دیگر بہت سے مسائل انہی دو بڑے مسائل کے پیدا کردہ ہیں جبکہ یہ بھی مانا جاتا ہے کہ معاشی بحران بھی درحقیقت سیاسی بے یقینی کا نتیجہ ہے؛ گویا سیاسی عدم استحکام ہی اُم المسائل ہے۔ اگر ہمیں ملکی مسائل سے نمٹنا ہے تو سیاسی سمت درست کرنا ہو گی اور اس کیلئے ناگزیر ہے کہ آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انتخابات کو یقینی بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا جائے۔ ملک کے اندر اور باہر سے بہت سے مبصر پورے انتخابی عمل کی بغور مانیٹرنگ کرتے ہیں؛ چنانچہ کوئی بھی چیز زیادہ دیر ڈھکی چھپی نہیں رہ سکتی۔ انتخابات کی غیر شفافیت سے نہ صرف جمہوری معیار بلکہ ملکی تشخص پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں حالانکہ انتخابات ہی ہمارے قومی مستقبل کی بنیاد ہوتے ہیں‘ اگر بنیاد ہی میں مسائل ہوں گے تو پائیدارعمارت کی تعمیر کا خواب بھی تشنہ تعبیر رہے گا۔