آصف علی زرداری کا دورِ صدارت
پیپلز پارٹی کے قائدآصف علی زرداری کو بھاری اکثریت کے ساتھ دوسری بار صدرِ مملکت کے منصب کیلئے منتخب کیا گیا ہے۔نو منتخب صدر سرد گرم چشیدہ سیاسی رہنما ہیں ۔ کارزارِ سیاست میں جیسے تلخ شیریں تجربات کا سامنا انہیں رہا ہے ہمارے سیاسی رہنماؤں کی موجودہ نسل میں شاید کسی کو بھی ان کا ہمسر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ تجربہ اور سیاسی ویژن نئے صدر کو ملک میں سیاسی مفاہمت اور ہم آہنگی کو فروغ دینے میںمدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔بطور سیاسی رہنماآصف علی زرداری کی شہرت مفاہمت کو فروغ دینے والے رہنما کی ہے۔ یہ انہی کا کام ہے کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں بارِ دگر حکومتی اتحاد کے بندھن میں بندھی ہیں۔ اگرچہ میثاقِ جمہوریت محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے 2006 میں کیا تھا ‘ تاہم مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مابین جو اتحاد2022ء سے قائم ہوا وہ عملاً زیادہ پائیدار اور نتیجہ خیز نظر آتا ہے۔ دو بڑی جماعتوں کی سیاسی مفاہمت اب دوسرے حکومتی دور میں داخل ہو چکی ہے اور جس طرح دونوں جماعتیں حکومتی اتحاد میں شیرو شکر نظر آتی ہیں یہ پاکستان کی جمہوری سیاسی تاریخ کیلئے غیر معمولی صورت ہے کیونکہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتوں میں اتفاقِ رائے اور مفاہمت کی سیاست نایاب رہی ہے۔ صدر آصف علی زرداری کے منصب سنبھال لینے کے بعد امید کی جاتی ہے کہ وہ سیاسی مفاہمت کیلئے زیادہ فعال کردار ادا کریں گے اور جمہوریت کے استحکام کی جو روایت انہوں نے اپنے سابق دورِ صدارت میں شروع کی تھی اسے آگے بڑھائیں گے۔ سابقہ دور میں صدر آصف علی زرداری کے کریڈٹ پر جو اہم کارنامے ہیں ان میں اٹھارہویں آئینی ترمیم سرفہرست ہے۔ اس ترمیم کے ذریعے صوبائی خود مختاری کی جانب بڑا قدم اٹھایا گیا اورقومی فنائنس کمیشن ‘ قدرتی گیس‘ صوبائی قرضہ جات‘ ہنگامی صورتحال کا نفاذ اور دیگر قانون سازی جیسے معاملات کو صوبائی اختیار میں دے دیا گیا ہے۔اسی آئینی ترمیم کا ایک اہم جز آرٹیکل 58 (2) بی کا خاتمہ ہے ‘ جس سے منتخب اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے صدارتی اختیار کو مکمل طور پر ختم کر کے پارلیمان تحلیل کرنے کا یہ راستہ بند کر دیا گیا۔ اس ترمیم کو ملک میں جمہوری استحکام کیلئے اہم ترین پیش رفت سمجھا جاتا ہے کیونکہ ماضی میں پارلیمان تحلیل کرنے کے صدارتی اختیار نے منتخب حکومتوں پر ہمیشہ تلوار لٹکائے رکھی اور کوئی اسمبلی اپنی مدت پوری نہ کر پائی۔ صدر زرداری کیلئے آنے والے دورِ صدارت کا اصل معرکہ یہ ہو گا کہ وہ ملک میں جمہوری استحکام یقینی بنانے کیلئے سیاسی تضادات اور تصادم کی صورتحال کو ختم کرنے کیلئے اقدامات کریں۔اس وقت ملک عزیز کے سب سے بڑے چیلنجز میں معاشی استحکام کا چیلنج اہم ترین ہے ‘ مگر اس کیلئے ملک میں سیاسی مفاہمت کا ماحول ناگزیر ہے۔ آصف علی زرداری معاشی استحکام کیلئے بارہا فکر ظاہر کر چکے ہیں ‘ موجودہ حکومت کا ساتھ دینے کی وجہ بھی انہوں نے یہی بتائی تھی کہ وہ ملک کے معاشی استحکام ‘ ترقی اور خوشحالی کیلئے حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں۔ مگر یہ واضح ہے کہ ملک میں سیاسی مفاہمت کے بغیر معاشی استحکام کی جانب پیش رفت مؤثر ثابت نہیں ہو سکتی‘ اس لیے آصف علی زرداری صاحب کو چاہیے کہ منصبِ صدارت سنبھالنے کے بعد سیاسی مفاہمت کیلئے بھرپور کوشش کریں۔ مگر مفاہمت کیلئے ضروری ہے کہ سبھی سیاسی دھڑے اس کیلئے آمادگی ظاہر کریں۔ اس سلسلے میں حزبِ اختلاف کی ذمہ داریاں کسی سے کم نہیں۔ اگر وہ ہمہ وقت بجنگ آمد رہنے کو ترجیح دیں گے تو یہ اندیشہ ہے کہ مفاہمت کی خواہش یا کوشش کامیاب نہ ہو سکے گی۔ ہم آہنگی کی تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو اس پر کھلے دل سے غور کرنا چاہیے۔ یہ واضح ہے کہ ملک کا مفاد مفاہمت اور ہم آہنگی کی سیاست میں ہے ٹکراؤ میں ہر گز نہیں۔