اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

حساس ڈیٹا کی چوری

نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی سے ڈیٹا لیک کی تحقیقات کیلئے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی رپورٹ میں وزارتِ داخلہ کو آگاہ کیا ہے کہ 2019ء سے 2023ء کے درمیان 27لاکھ شہریوں کا ڈیٹا لیک ہوا۔ مذکورہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق نادرا کا ڈیٹا ارجنٹائن اور رومانیہ میں فروخت ہونے کے شواہد بھی ملے ہیں جبکہ کراچی‘ ملتان اور پشاور میں نادرا کے مختلف دفاتر سے یہ ڈیٹا لیک ہوا ہے ۔ اگرچہ ڈیٹا چوری کے مسائل کافی عرصے سے موجود ہیں لیکن گزشتہ برس جولائی میں ہونے والی ڈیٹا چوری نے حکام کی توجہ حاصل کی جس کے بعد پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ہدایات پر ایک خصوصی تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی۔ اس تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ ہمارے ڈیجیٹل ایکو سسٹم میں موجود خامیوں کو ظاہر کرتی ہے۔ نیشنل ڈیٹا بیس سے شہریوں کے چوری شدہ ڈیٹا کو جرائم کی سرگرمیوں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ نیشنل ڈیٹا بیس سے شہریوں کے ڈیٹا چوری میں متعلقہ ادارے کے ملازمین ہی ملوث پائے گئے ہیں۔گزشتہ برس لاکھوں افغان شہریوں کے پاکستان کے جعلی پاسپورٹ پر بیرونِ ملک سفر کرنے کا انکشاف بھی ہو چکا ہے‘ یہ جعلی پاسپورٹ بنانے والا بھی کوئی اور نہیں بلکہ متعلقہ ادارے کے اپنے ملازمین تھے۔نادرا کو شہریوں کے ڈیٹا کی بھرپور حفاظت یقینی بنانے کی ضرورت ہے اور ڈیٹا چوری میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے تاکہ آئندہ ایسے واقعات کا تدارک ہو سکے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement