اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

دہشت گردی کے خاتمے کا عزم

وزیراعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت اعلیٰ سطحی سکیورٹی اجلاس میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے ملک سے دہشتگردی کی لعنت کے خاتمے کیلئے مسلح افواج کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ ہم دہشتگردی سے اُس وقت تک لڑیں گے جب تک پاکستان‘ اس کے عوام اور ان کے مہمانوں پر برُی نظر ڈالنے والے ہر دہشت گرد کا خاتمہ نہیں ہو جاتا‘ ہم آخری دم تک دہشتگردی کا مقابلہ اپنی پوری طاقت سے کریں گے۔ اجلاس میں ریاست کے تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اس عفریت سے نمٹنے کا اعلان کیا گیا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دہشت گردی ایک عالمی خطرہ ہے اور ہر خطہ اس وقت اس خطرے سے نبرد آزما ہے۔ اس حوالے سے ہر خطے اور ہر ملک کے چیلنجز الگ الگ ہیں مگر اس مذموم کارروائی کے مقاصد بالکل عیاں ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے پاکستان کی ترقی کو نشانہ بنانے اور دوست ممالک سے بداعتمادی پیدا کرنے جیسے مذموم مقاصد کارفرما ہیں۔ اس میں پس پردہ کردار کون سے ہیں یہ بھی ڈھکا چھپا نہیں۔ مغربی سرحدوں کے پار دہشتگردوں کیلئے دستیاب پناہ گاہوں سے متعلق پاکستان اپنے شدید تحفظات کا بار ہا اظہار کر چکا ہے اور یہ بھی کہ دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے ایک مشترکہ علاقائی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ گوادر کمپلیکس اور تربت میں نیول بیس پر حملے کی ناکام کوششیں ہوں یا شانگلہ میں چینی انجینئرز کی ہلاکت کا افسوسناک واقعہ‘ دہشتگردی کی حالیہ بزدلانہ کارروائیوں میں پاکستان کی اقتصادی ترقی کے اہم منصوبوں کونقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ حالیہ ہفتوں اور مہینوں کے دوران خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں کی بھی ایک نئی لہر دیکھی گئی جس کا مقصد داخلی سلامتی کو غیر مستحکم کرنے اور ملکی تعمیر و ترقی کے سفر میں رکاوٹیں ڈالنے کے سوا کچھ نہیں۔ یہ کن غیر ملکی عناصر کا ایجنڈا ہے‘ اس حوالے سے سکیورٹی ادارے قوم کو بار ہا بریف کر چکے ہیں۔ قریب ڈیڑھ دہائی قبل بھی ہمہ جہت دہشتگردی کے ذریعے ایسی مذموم کارروائیاں کی جاتی رہیں‘ کہیں اس کو مذہبی شدت پسندی کا لبادہ اوڑھایا گیا اور کہیں قوم پرستی کا مگر دہشت گردی خواہ کسی بھی طرح کی ہو‘ اُس کے پس پردہ عناصر پہچانے جاتے ہیں۔ 2022ء میں کالعدم ٹی ٹی پی کیساتھ جنگ بندی کا معاہدہ ختم ہونے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی میں واضح اضافہ دیکھا گیا ۔ وزارتِ داخلہ کے ایوانِ بالا میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق مئی 2022ء سے اگست 2023ء کے دوران ملک میں دہشت گردی کے 1560 واقعات پیش آئے‘جن میں سکیورٹی فورسز سے تعلق رکھنے والے 593 اور 263 عام شہری شہید ہوئے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے ملک میں امن و استحکام یقینی بنانے کیلئے دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے جس عزم کا اعادہ کیا ہے‘ اس میں پوری قوم کی دعائیں اور امنگیں شامل ہیں۔ یہ عزم اس بات کا اظہار ہے کہ وطن کے دفاع کو ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے گا اور امنِ عامہ کو نقصان پہنچانے والوں کیلئے اس ملک میں کوئی جگہ نہیں۔ دو دہائیوں تک دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کثیر جانی و مالی نقصان کے بعد حاصل ہونے والی کامیابیوں کو یوں رائیگاں جانے نہیں دیا جا سکتا۔ مسلح افواج نے نائن الیون کے بعد مغربی سرحدوں کے ذریعے پاک سرزمین کو وقفِ اضطراب رکھنے کی سازشوں کو جس طرح ناکام بنایا‘ اس کے تناظر میں پورے ایقان سے کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانی افواج اور قوم مل کر نئی بیرونی سازشوں کو بھی ناکام بنا دیں گی مگر اندرونی استحکام کیلئے ضروری ہے کہ ہمارے سیاسی حلقے اپنے گروہی مفادات و اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر اسمبلیوں کے اندر اور باہر سر جوڑ کر بیٹھیں اور مشترکہ لائحہ عمل کے ذریعے ملک کو اس ہیجانی کیفیت سے نکالیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement