اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

ججز خط پر تحقیقاتی کمیشن

اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط کے معاملے پر حکومت نے تحقیقاتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے۔ کمیشن کے قیام کا اعلان وزیراعظم شہباز شریف اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ملاقات کے بعد کیا گیا۔ تین روز قبل اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ جج صاحبان کی جانب سے ججوں کے کام میں مبینہ مداخلت اور انہیں دباؤ میں لانے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھا خط سامنے آیا تھا جس میں معزز جج صاحبان نے سپریم جوڈیشل کونسل سے ایگزیکٹو ممبران بشمول خفیہ ایجنسیوں کے ججز کے کام میں مبینہ مداخلت اور ججز کو دباؤ میں لانے سے متعلق رہنمائی طلب کی تھی۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے نتیجے میں سامنے آیا جس میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی 2018ء میں برطرفی کو غلط اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ جسٹس شوکت صدیقی کو ریٹائرڈ تصور کیا جائے گا۔ ججز کے خط میں کہا گیا کہ ججوں کا موجودہ کوڈ آف کنڈکٹ اس حوالے سے رہنمائی کرنے سے قاصر ہے کہ ریاستی اہلکاروں کی جانب سے عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے کا کیا ردِعمل دیا جائے‘ اس بات کی تحقیقات انتہائی اہم ہیں کہ کیا ریاست کی جانب سے عدلیہ کے کام میں مداخلت کی پالیسی اب بھی جاری ہے؟ جج صاحبان کی جانب سے لکھے گئے خط پر غور کیلئے بدھ کے روز چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ اجلاس ہوا؛ گزشتہ روز جاری کیے گئے اعلامیہ کے مطابق چیف جسٹس نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے مذکورہ ججز سے ملاقات کی اور ان کے تحفظات کو انفرادی طور پر سنا۔ اعلامیہ میں واضح کیا گیا کہ عدلیہ کے کام میں کسی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی۔ گزشتہ روز چیف جسٹس آف پاکستان نے وزیراعظم سے بھی ملاقات کی جس کے بعد حکومت کی جانب سے تحقیقاتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا گیا۔ وفاقی وزیرقانون اور اٹارنی جنرل نے مشترکہ پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ ادارہ جاتی مداخلت کسی صورت قابلِ قبول نہیں‘ ججز کے خط کے حوالے سے کمیشن انکوائری ایکٹ کے تحت کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ اس معاملے کو آج (جمعہ کو) کابینہ کے سامنے رکھا جائے گا اور کابینہ کی مشاورت سے ٹی او آرز طے کیے جائیں گے۔ حکومت نے اگر اس اہم معاملے پر تحقیقاتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے تو اس کو پایہ تکمیل تک بھی پہنچانا چاہیے۔ عمومی طور پر ہمارے ہاں کمیشن بنانے کے اعلان سے معاملے کو دبانے کا مطلب اخذ کیا جاتا ہے۔ ہمارے قومی ماضی سے ایسی کتنی ہی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں کہ کسی معاملے پر تحقیقاتی کمیشن بنایا گیا مگر پھر کمیشن کی تحقیقات ہی کو منظرِ عام پر نہ آنے دیا گیا‘ یا اس کی سفارشات کو دبا دیا گیا اور پھر جب دوبارہ کوئی ویسا معاملہ پیش آیا تو کوئی نیا کمیشن بنا دیا گیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط کے معاملے کو الگ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ نہایت حساس معاملہ ہے جس میں اعلیٰ عدلیہ کے اہلکار خود شکایت کنندہ ہیں۔ دوسری جانب یہ امر بھی خصوصی توجہ کا متقاضی ہے کہ ایسے الزامات ماضی میں بھی لگتے رہے مگر کبھی کسی معاملے کی جامع تحقیقات نہیں ہو سکیں اور نہ ہی الزام عائد کرنے والوں نے اس حوالے سے ٹھوس شواہد فراہم کیے۔ حال ہی میں جسٹس شوکت صدیقی کیس میں جنرل (ر) فیض حمید نے عدالتِ عظمیٰ کے روبرو عدلیہ پر اثر انداز ہونے کے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے مذکورہ جج سے کسی بھی ملاقات کی تردید کی ہے۔ اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس طرح کے الزامات کو ثابت کرنا بھی کارِ دشوار ہے۔ یقینا یہ تمام امور حکومت کے بھی پیشِ نظر ہوں گے۔ تحقیقاتی کمیشن میں حکومت کو انہی سوالات کا جواب تلاش کرنا ہے اور اس معاملے کو شفاف طریقے سے منطقی انجام تک پہنچانا چاہیے۔ اس حوالے سے مدعا علیہان کو بھی بھرپور تعاون کرنا چاہیے تاکہ حقائق سامنے آ سکیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement