اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

سیاسی ہم آہنگی کی ضرورت

 وزیراعظم شہباز شریف کو دورۂ سندھ کے موقع پر تاجروں نے معاشی استحکام کے لیے ہمسایہ ممالک اور پی ٹی آئی سے بات چیت کی تجویز دی ہے۔ قبل ازیں وزیراعظم نے کراچی میں وفاقی اور صوبائی کابینہ کے اراکین سے خطاب میں وفاق اور صوبوں میں گہرے تعاون و تعلق کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ معاشی استحکام کے لیے وفاق اور صوبوں کو قریبی تعلق بنانا پڑے گا‘ 8فروری کے انتخابات کے نتیجے میں منقسم مینڈیٹ ملا‘ اس مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے صوبوں کی ترقی و خوشحالی کے لیے کام کرنا چاہیے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ اربابِ اختیار سیاسی حدت کو کم کرنے‘ ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے اور وفاق اور صوبوں میں ورکنگ ریلیشن شپ کو بہتر بنانے کے خواہاں ہیں مگر اس حوالے سے عملاً بھی کچھ کر دکھانا ہو گا۔ ایسے وقت میں جب عالمی صورتحال لمحہ بہ لمحہ تغیر پذیر ہے‘ اپنے گھر کی حالت کو سدھارنے کی ذمہ داری دوچند ہو جاتی ہے۔ اس وقت حکومت علاقائی اور پڑوسی ممالک سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ رواں ماہ سعودی وزیر خارجہ اور ایرانی صدر کے دورۂ پاکستان سے علاقائی تعاون کو مزید استحکام میسر آیا ہے۔ اگر علاقائی ممالک سے تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں تو آپس میں کیوں نہیں؟ حکومت اگر اندرونی سیاسی استحکام کی اہمیت سے آگاہ ہے تو اس جانب کوئی مثبت پیش رفت دیکھنے کو کیوں نہیں مل رہی؟ سیاسی رہنما متعدد بار معاشی ترقی کے لیے سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے کی ضرورت پر زور  دے چکے ہیں مگر بیشتر صورتوں میں ایسے بیانات عملی صورت اختیار نہیں کر پاتے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی عدم استحکام سماجی بے چینی اور ناامیدی کو بھی بڑھاوا دے رہا ہے اور عوام کی اکثریت سیاسی عمل سے لاتعلقی اختیار کر رہی ہے‘ جو ایک جمہوری معاشرے کے لیے قطعاً موزوں نہیں ہے۔ جمہوریت جمہور سے معنون ہے اور یہی اس نظامِ حکومت کا خاصہ ہے کہ اس میں اختلاف کے باوجود سب کو ساتھ لے کر چلا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی اور فریقِ مخالف پر بھی برابر کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے؛ تاہم حکومت کو اس سلسلے میں پہل کر کے اپنے بڑپن کا ثبوت دینا چاہیے اور اپوزیشن سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک میز پر بٹھانا چاہیے۔ گرینڈ ڈائیلاگ کے انعقاد سے حکومت سیاسی درجہ حرارت کو نارملائز کرنے میں سنجیدگی ظاہر کر سکتی ہے۔ گزشتہ دورِ حکومت میں بطور اپوزیشن لیڈر وزیراعظم شہباز شریف نے میثاقِ معیشت کی صائب تجویز پیش کی تھی‘ اس جانب اب عملی پیشرفت کرنا ہو گی۔ اس وقت ہمارے ملکی مسائل جس نہج پر پہنچ چکے ہیں‘ انہیں کوئی ایک سیاسی جماعت یا حکومت حل نہیں کر سکتی۔ اس کے لیے معاشرے کے ہر طبقے‘ ہر فرد کو بقدر جثہ اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔ سب مل کر ہی ملک و قوم کو اس بحران سے باہر نکال سکتے ہیں اور ملک کو مسائل کے بھنور سے نکالنے کے لیے مفاہمت کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔ سیاسی مخاصمت اور خلفشار سے گزشتہ ڈیڑھ‘ دو برس میں جو معاشی و سماجی نقصانات ہو چکے‘ وہ محتاجِ وضاحت نہیں۔ اب تمام سٹیک ہولڈرز کو ذاتی‘ گروہی اور انفرادی مفادات سے اوپر اٹھ کر ملکی مفادات کو اولیت دینی چاہیے۔ اگر ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے سیاسی اتفاقِ رائے سے معیشت کو طویل مدتی بنیادوں پر مستحکم کرنے کا عزمِ صمیم کر لیا جائے تو دنوں میں کایا کلپ ہو سکتی ہے۔ یہ بات کسی شک و شبہے سے بالاتر ہو کر کہی جا سکتی ہے کہ وفاق اور تمام صوبے مل کر درپیش چیلنجز کا سامنا کرنے کی پوری اہلیت رکھتے ہیں۔ ضرورت مفاہمت و یگانگت کی جانب قدم بڑھانے کی ہے۔ تاجر برادری نے جو تجویز دی ہے‘ ملک کے سنجیدہ طبقات بھی زبانِ حال سے اس تجویز کی تائید کر رہے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ عملی اقدامات سے اس تجویز کا ردِعمل ظاہر کیا جائے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement