کوئلہ کان حادثہ
گزشتہ روز بلوچستان کے اضلاع دکی اور ہرنائی کی کوئلہ کانوں میں زہریلی گیس بھرنے سے ہونیوالے دو مختلف واقعات میں پانچ کوئلہ کان کن جاں بحق ہو گئے۔ گزشتہ ماہ بھی ہرنائی ہی میں کوئلہ کان میں گیس بھرنے سے ہونے والے دھماکے میں 12 مزدور جاں بحق ہو گئے تھے۔ جدید ٹیکنالوجی کے فقدان اور ضروری سہولتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے کوئلے کی کانوں میں حادثات معمول بن چکے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال 300 سے زائد کوئلہ کان کن مختلف حادثات میں جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ ہرنائی میں جس کان میں حادثہ پیش آیا ہے‘ گزشتہ برس نومبر میں ایک اعلیٰ سطحی انسپکشن ٹیم اس کو بغیر اجازت مائننگ کرنے اور مائننگ کیلئے ضروری سہولتوں کے فقدان کے باعث مائننگ ایکٹ 1926ء کے تحت بند کرنے کے احکامات جاری کر چکی ہے۔ یہ صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ محض احکامات جاری کرنا کافی نہیں‘ ان پر عملدرآمد یقینی بنانا بھی ضروری ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ نہ صرف ہرنائی‘ جہاں آئے روز ایسے حادثات معمول بن چکے ہیں‘ بلکہ ملک کے باقی حصوں میں بھی کان کنی کے دوران حفاظتی اقدامات یقینی بنائے اور کان کنی کرنے والے ٹھیکیداروں اور مالکان کو مزدوروں کو ضروری سہولتیں فراہم کرنے کا پابند بنائے تاکہ کان کنوں کی جانوں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔