اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

سرکاری اداروں کا بوجھ

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ سرکاری ادارے ملازمین کو پال رہے ہیں‘ ان کو بٹھا کر تنخواہیں دی جا رہی ہیں‘ ایک ایک اسامی پر تین تین گنا ملازمین کو بھرتی کر رہے ہیں‘ غیر قانونی بھرتیوں کا بوجھ عوام پر کیوں ڈالیں؟ چیف جسٹس آف پاکستان نے سرکاری اداروں سے متعلق جو ریمارکس دیے ہیں‘ عالمی ادارے نہ صرف اس جانب توجہ مبذول کرا چکے ہیں بلکہ حکومتی رپورٹس بھی ان ریمارکس کی تائید و تصدیق کرتی ہیں۔ وزارتِ خزانہ کی ایک رپورٹ کے مطابق مختلف شعبوں میں 212 قومی ادارے کام کر رہے ہیں جن میں سے 197 ادارے نقصان میں چل رہے ہیں۔ 2016ء میں ان اداروں کے نقصانات 45ارب کے لگ بھگ تھے مگر گزشتہ آٹھ برسوں میں ان کا سالانہ خسارہ پانچ سو ارب تک پہنچ گیا ہے۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ میں بھی بعینہٖ صورتحال بیان کی گئی ہے‘ جس کے مطابق 84 سرکاری ملکیتی اداروں نے گزشتہ تین برس کے دوران قومی خزانے کو ایک ہزار ارب روپے کا نقصان پہنچایا ہے اور اب ان اداروں کا خسارہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ حکومت کے لیے ان کو چلانا ناممکن ہو چکا ہے۔ نقصان میں چلنے والے سرکاری ملکیتی اداروںکا جائزہ لیں تو ان میں پی آئی اے‘ بجلی و گیس کی تقسیم کار کمپنیاں‘ پاکستان سٹیل ملز اور پاکستان ریلوے سرفہرست ہیں۔ پی آئی اے‘ جو کسی دور میں علاقائی فضائی کمپنیوں کے لیے رشک کی علامت سمجھی جاتی تھی‘ اس وقت خسارے کے اعتبار سے سرفہرست ہے۔ پی آئی اے کی سالانہ رپورٹ 2022ء کے مطابق محض ایک برس میں قومی ایئر لائن کا خسارہ 88 ارب روپے تھا‘ جو گزشتہ برس 97.5 ارب روپے تک جا پہنچا۔ گزشتہ سال کے پہلے چھ مہینوں میں قومی ایئر لائن کا خسارہ 60ارب روپے تھا‘ یعنی 50کروڑ یومیہ اور اکتوبر 2023ء تک اس کا مجموعی خسارہ 713 ارب روپے تک پہنچ چکا تھا۔ 1987ء سے پی آئی اے صرف مسلسل خسارے کا شکار ہے بلکہ متعدد مالی پیکیجز بھی اس ادارے کا خسارہ کم نہیں کر سکے۔اسی طرح 2007ء تک پاکستان سٹیل ملز ایک منافع بخش ادارہ تھا جو نہ صرف سٹیل کی ملکی ضروریات پوری کر رہی تھا بلکہ اس کی مصنوعات برآمد بھی کی جاتی تھیں لیکن پھر یہ منافع بخش ادارہ خسارے کا شکار ہوتا چلا گیا اور نوبت بہ ایں جا رسید کہ 2015ء میں اس کی پیداوار کو بند کرنا پڑا۔ 2008ء سے 2023ء تک سٹیل ملز کا آپریشنل خسارہ 206 ارب روپے سے تجاوز کر چکا جبکہ اربوں روپے کی مشینری ناکارہ ہو چکی ہے۔ خسارے کے شکار دیگر اداروں کی بھی یہی داستان ہیں اور انہیں فعال رکھنے کیلئے قومی خزانے سے ہر سال اربوں روپے ادا کرنا پڑتے ہیں۔ ان اداروں کے خسارے کا عبوری جائزہ لیا جائے تو وہی وجوہات سامنے آئیں گی جو محترم چیف جسٹس نے بیان کی ہیں؛ ایک اسامی پر تین تین گنا ملازمین اور غیر قانونی و سیاسی بھرتیاں۔ یہی وجہ ہے کہ کاروباری اداروں کو سرکاری تحویل میں چلانے کا طریقہ اب تقریباً پوری دنیا میں متروک ہو چکا ہے۔ پاکستان میں بھی قریب پانچ دہائیوں قبل نجی صنعتوں‘ بینک اور مختلف نوعیت کے کاروبار کو قومیانے کا تجربہ کیا جا چکا جس سے معاشی تنزل اور جمود کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ معاصر دنیا میں کاروباری اداروں کی نجکاری کے ذریعے ان کے خسارے سے چھٹکارا پانے ہی کو واحد قابلِ عمل حل سمجھا جاتا ہے اور آئی ایم ایف سمیت عالمی ادارے بھی یہی تجاویز دے رہے ہیں۔ اگرچہ پی آئی اے سمیت چند اداروں کی نجکاری کا عمل شروع ہو چکا ہے؛ تاہم دانشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ خسارے کے شکار دیگر اداروں کا بوجھ بھی بروقت اُتار پھینکا جائے اور جتنی جلد ہو سکے‘ ان کی نجکاری کی طرف بڑھا جائے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement