اقتصادی سروے اور معیشت کا احوال
اقتصادی سروے 2023-24ء رواں مالی سال کے دوران معیشت کی مجموعی صورتحال کا خلاصہ پیش کر تا ہے۔ یہ تشویشناک بات ہے کہ رواں سال ملکی معیشت اکثر اہداف حاصل نہیں کر پائی‘ البتہ یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ ان مشکل حالات میں بھی زرعی شعبے نے نمایاں ترقی کی ہے اور یہ دو فیصد کے مقررہ ہدف کے مقابلے میں 6.25 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ صنعتی شعبے کیلئے یہ سال اچھا نہیں رہا‘ خاص طور پر بڑی صنعتوں کیلئے جن کی نمو منفی میں رہی۔دواسازی‘ فرنیچر‘ لکڑی کی مصنوعات‘ کیمیکل‘ ملبوسات‘ چمڑے کی مصنوعات‘ پٹرولیم اور خوراک کے شعبوں میں نمو مثبت رہی‘ تاہم آٹو موبائل‘ ٹیکسٹائل اور آئرن و سٹیل کی مصنوعات کے شعبے منفی نمو میں رہے۔ فی کس آمدنی میں رواں سال 129ڈالر کا اضافہ بتایا جاتا ہے۔ اقتصادی سروے کے مطابق رواں سال فی کس آمدنی 1680 ڈالر تک پہنچ گئی‘ مگر جی ڈی پی میں سرمایہ کاری کے حصے میں کمی واقع ہوئی ہے۔گزشتہ مالی سال کے دوران جی ڈی پی میں سرمایہ کاری کا حصہ 14.13 فیصد تھا مگر رواں سال 13.14 فیصد پر آگیا جو ماہرینِ معیشت کے مطابق 50سال کی کم ترین سطح ہے۔ اقتصادی سروے میں اس گراوٹ کی وجہ حکومت کی میکرو اکنامک پالیسیوں میں سختی اور سیاسی عدم استحکام کو قرار دیا گیا ہے۔ جی ڈی پی میں بچت کے حصے میں بھی کمی آئی ہے اور گزشتہ برس کے 13.2 فیصد کے مقابلے میں رواں مالی سال کے دوران یہ 13 فیصد پر ہے۔ یہ عالمی اوسط (28فیصد) اور جنوبی ایشیائی خطے کی( اوسط 26.3 فیصد) سے تقریباً دوگنا کم ہے۔اس اشاریے سے یہ بھی ظاہرہوتا ہے کہ ہماری معیشت میں بچت کا رجحان کس درجہ کم ہے اور یہ کہ ہم ایک صارف معیشت میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ ترقی پذیر دنیا کے وہ ممالک جہاں بچتوں کا رجحان زیادہ ہے انہوں نے معاشی نمو میں ہمیشہ بہتر کارکردگی دکھائی ہے جبکہ ہمارے جیسے صارف معاشرے جہاں بچت کا رجحان دنیا کی کم ترین سطح پر ہے‘ درآمدات اور قرضوں کے کھاتوں میں اضافہ کرتے ہیں۔ ہمارے سماج میں بچت کے رجحان کے بجائے خرچ کی ترغیب دی جاتی ہے اور اس سلسلے میں لوگوں کی آگاہی کیلئے حکومت کی جانب سے بھی کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی بچت کے رجحان میں کمی کا موجب ہے مگر اس کے سماجی عوامل کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس حوالے سے عوامی شعور کی کمی کے مسئلے کو۔اقتصادی سروے کا جائزہ واضح کرتا ہے کہ ہماری معیشت مسلسل جمود اور افراطِ زر کی کیفیت (سٹیگ فلیشن)میں ہے۔گزشتہ مالی سال کی طرح رواں سال بھی افراطِ زر میں غیر معمولی اضافہ ہوا جبکہ معاشی نمو نہایت سست روی کا شکار رہی۔ بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور صنعتی شعبے کی کارکردگی میں نمایاں کمی کے ساتھ یہ معاشی جمود عوام پرشدید اثرات مرتب کررہا ہے اور لوگ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور آمدنی میں کمی کے مسائل کے درمیان پس رہے ہیں۔ اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے مگر آمدنی بتدریج سکڑتی جاتی ہے۔ آنے والے مالی سال کے دوران حکومت کو اس صورتحال کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ آئی ایم ایف کی ہدایات کی روشنی میں حکومت نے عام آدمی کو ملنے والی معاشی سہولتوں کو کم کرنے کا تہیہ کر لیا ہے مگربہتر انتظامی اقدامات کے ذریعے بھی اشیائے ضروریہ خاص طور پر خوراک کی قیمتوں میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ حکومت کو عام آدمی کی آمدنی میں اضافے کے اقدامات کی جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہو گی۔ اس کیلئے چھوٹی صنعتوں کی سرپرستی کی جانی چاہیے۔ نوجوانوں کو آمدنی بڑھانے کیلئے حکومتی منصوبوں کے مفید نتائج سامنے آرہے ہیں۔ روا ں مالی سال کے دوران ملک میں مقیم فری لانسرز نے 35 کروڑ ڈالر کا زرِمبادلہ کمایا ہے۔ نوجوانوں کو آئی ٹی سے متعلقہ ہنر سکھانے کے اقدامات میں اضافہ کر کے اس آمدن کو بڑھایا جا سکتا ہے۔