اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

بجٹ‘ خدشات اور تحفظات

 مالی سال 2024-25ء کا ٹیکسوں سے بھر پور بجٹ قومی اسمبلی نے منظور کر لیا ہے۔ اگرچہ بجٹ میں بعض تعمیری اقدام بھی شامل ہیں جیسا کہ سولر پینل اور لیتھیم بیٹری پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ‘ فارم ہاؤسز اور بڑے گھروں پر کیپٹل ویلیو ٹیکس‘ ٹیکس فراڈ روکنے کیلئے ’’ٹیکس فراڈ انویسٹی گیشن وِنگ ‘‘کا قیام وغیرہ‘ مگر حکومتی ترامیم کی منظوری اور اپوزیشن کی تمام ترامیم ردّ کرنے سے اس بجٹ کے یکطرفہ ہونے کا تاثر پختہ ہوتاہے۔ علاوہ ازیں تمام اشیائے ضروریہ پر 18 فیصد سیلز ٹیکس اور رئیل اسٹیٹ پر پہلی مرتبہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی سے عام آدمی کیلئے رہائش اور اشیائے ضروریہ کے اخراجات کا بوجھ ناقابلِ برداشت ہو جائے گا۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ کرنسی مستحکم ہے‘ سرمایہ کار واپس آ رہے ہیں‘ گزشتہ مہینے غذائی مہنگائی دو فیصد پر تھی‘ معیشت میں استحکام آیا ہے‘مگر یہ دعوے ملکی معیشت اور عام آدمی کی زندگی سے میل نہیں کھاتے۔جب حکومت پٹرولیم لیوی میں یکشمت دس روپے فی لٹر اضافہ کرے گی یا ادویات سمیت تمام اشیائے ضروریہ پر18 فیصد کی بلند ترین شرح سے جی ایس ٹی عائد ہو گا تو کیسے ممکن ہے کہ معاشرے کے کمزور ترین طبقات اس کے نتیجے میں بڑھنے والی مہنگائی کے اثرات سے بچ سکیں؟ افراطِ زرکی بلند شرح اور روزگار کے مواقع میں نمایاں کمی کی وجہ سے لوگوں کے مالی بوجھ میں جس قدر اضافہ ہوا‘ وہ ورلڈ بینک کی رپورٹ سے واضح ہے جس کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح تقریباً 40 فیصد ہو چکی ہے۔روز مرہ ضروریاتِ زندگی پر نئے ٹیکسوں سے پیدا ہونے والی مہنگائی غریب اور کم آمدنی والے طبقے کیلئے سب سے خوفناک ثابت ہو گی اور اس کے نتیجے میں غربت کی شرح میں اضافہ واضح نظر آتا ہے۔ وزیر خزانہ جی ڈی پی میں محصولات بڑھانے پر کمر بستہ ہیں مگر اس کیلئے انہوں نے ٹیکس نیٹ بڑھانے کے بجائے بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافے اور تنخواہ دار طبقے پر مزید بوجھ لادنے کا درمیانی راستہ نکالا ہے۔ اس طرح تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ غیر معمولی طور پر بڑھ ہو چکا ہے‘ جو پاکستان سے جوہرِ قابل کی نقل مکانی کا ایک اور محرک ثابت ہوگا۔ ملک سے برین ڈرین کی رفتار پہلے ہی بہت تیز ہے ‘ ٹیکسوں کی بھرمار اسے مہمیز کرے گی۔ مگر عام آدمی پر ٹیکسوںکا بوجھ بڑھانے کے ساتھ حکومت کی جانب سے اپنے اخراجات کم کرنے کا کوئی منصوبہ یا عزم نظر نہیں آتا۔ حکومت کی طرف سے ایسی کوئی سکیم سامنے نہیں آئی کہ آنے والے سال کے دوران بچت کی حکمت عملی کے تحت حکومت کون سے غیر ضروری اخراجات کی کٹوتی کرے گی اور کس شعبے میں کتنا سرمایہ بچایا جائے گا۔ عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھانے کے ساتھ ضروری تھا کہ حکومت اپنی سطح پر بچت مہم کے ذریعے قومی آمدنی میں اضافے کی غرض سے عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہارکرتی مگر یہاں اس کے برعکس صورتحال ہے۔حکومت متعدد بار اخراجات میں کمی اور کفایت شعاری کا اعلان کر چکی ہے‘ اس کیلئے گزشتہ سال ناصر محمود کھوسہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی بھی بنائی گئی لیکن بجٹ میں اس کمیٹی کی سفارشات کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ دوسری جانب اراکینِ اسمبلی کی مراعات اور وزیراعظم ہائوس اور ایوانِ صدر کے سالانہ اخراجات کی مد میں خطیر اضافے سے یہ تاثر اجاگر ہوتا ہے کہ حکمران طبقہ خود کوئی قربانی دینے کو تیار نہیں اور معاشی بدحالی کا تمام بوجھ تنخواہ دار طبقے اور عام آدمی پر ڈالنا چاہتا ہے جو پہلے سے ٹیکس نیٹ میں پس رہے ہیں۔ مالی سال 2025 ء کیلئے معیشت کی نمو کا ہدف 3.6 فیصدمقرر کیا گیا ہے ‘ مگر موجودہ صورتحال میں جب سوائے زراعت کے معیشت کے کسی شعبے میں دَم نہیں اور سرمایہ کاری 50 سال کی کم ترین سطح پر ہے‘ یہ ہدف حاصل کرنا مشکل اَمر ہے۔پاکستان کا معاشی جمود کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور ٹیکسوں میں نئے اضافے اور نئے ٹیکسوں کے نفاذ سے مہنگائی کا جو طوفان اٹھے گا اس سے قوتِ خرید مزید کم ہو گی اور گرانی اور بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہو گا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں