اداریہ
WhatsApp: 0344 4450229

معاشی استحکام کی حقیقت

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ آئی ایم ایف سے حکومت کو طویل مدتی قرضہ مل جائے گا اور بقول اُن کے اس سے ملک میں میکرو اکنامک استحکام آئے گا۔ گزشتہ روز کی پریس کانفرنس میں وزیر خزانہ نے مہنگائی میں کمی اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی میں اضافے کی بات بھی کی۔ قومی آمدنی میں ٹیکسوں کا حصہ بڑھانے سے کسی کو بھی اختلاف نہیں کہ ملکی معیشت میں اس کی گنجائش بھی ہے اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی میں پاکستان خطے کے دیگر ممالک سے پیچھے بھی۔ مگر مسائل اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب ٹیکسوں میں عدم توازن ناگوار حد تک بڑھ جاتا ہے اور بعض شعبوں کو محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ اپنے حصے سے زیادہ اور دوسرے کم ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ حالیہ بجٹ میں بھی ایسا ہی ہوا ہے کہ بعض شعبے جو پہلے ہی ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں‘ انہیں ٹیکس وصولی کا آسان ہدف سمجھتے ہوئے ان پر مزید ٹیکس لاد دیا گیا۔ جیسا کہ جی ایس ٹی‘ جس سے اب شاید ہی کوئی چیز بچی ہوئی ہے اور اس کی وصولی کیلئے ایف بی آر کو کوئی محنت نہیں کرنا پڑتی یا تنخوا دار طبقہ‘ جس کی تنخواہ سے ٹیکس کاٹنا بھی حکومت کیلئے کوئی مشکل کام نہیں۔ دوسری جانب وہ شعبے‘ جن کا مالیاتی حجم خاصا بڑا ہے اور جہاں سے ٹیکس وصولی کی گنجائش بھی کافی زیادہ ہے‘ انہیں بھاری پتھر تصور کرتے ہوئے اسی حال پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ 42 ہزار خوردہ فروشوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا فخریہ اعلان کر رہے تھے مگر ڈیڑھ سو ارب ڈالر سے زائد مالیاتی حجم کی ریٹیل مارکیٹ‘ جس میں سالانہ آٹھ سے دس فیصد اضافہ ہو رہا ہے‘ سے بیالیس ہزار کو ٹیکس نیٹ میں لانا کوئی معرکہ نہیں۔ اسی طرح زرعی شعبہ‘ جس کے مداخل پر تو ٹیکس لاگو ہیں مگر زرعی انکم پر ٹیکس کا کوئی نظام وضع نہیں ہو پا رہا۔ معیشت کے بڑے بڑے شعبوں کو چھوڑ کر یا برائے نام ٹیکس لے کر ملک کی مجموعی پیداوار میں ٹیکس وصولیوں کا حصہ بڑھانے کیلئے اختیار کی گئی حکمت عملی کے منفی اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس طرح حکومتی محصولات میں کچھ اضافہ ہو رہا ہے مگر اس بے ڈھنگے ٹیکس نظام نے درمیانی آمدنی والے طبقے کو دیوار سے لگا دیا ہے۔ معاشی دانش مندی کا تقاضا تھا کہ زیریں اور درمیانے طبقے کو سہارا دینے کی کوشش کی جاتی تاکہ معیشت میں حرکت پیدا ہوتی مگر حکومت نے ٹیکس وصولی بڑھانے اور آئی ایم ایف کی ہدایات پر عمل کرنے کے لیے سب سے زیادہ بوجھ انہی طبقات پر ڈالا ہے۔ حال یہ ہے کہ حکومتی اخراجات میں کسی طرح کی کوئی قابلِ ذکر کمی نظر نہیں آتی‘ بلکہ بچت کے دعووں کے برعکس حکومتی اخراجات کو بڑھایا گیا ہے مگر خوراک‘ ادویات اور توانائی جیسی اشیا پر نئے ٹیکس لگا کر عام آدمی کے مالیاتی بوجھ میں نمایاں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ٹیکسوں کی بھرمار کر کے حکومت نے بجٹ میں آئی ایم ایف کی ہدایات کی تعمیل کی مگر عالمی مالیاتی ادارے کے مطالبات کا سلسلہ یہیں رکتا نظر نہیں آ رہا۔ بجلی‘ گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافے پر فوری عمل درآمد کا مطالبہ کر دیا گیا ہے اور ممکنہ طور پر اس کی تعمیل بھی فوری کر دی جائے گی۔ ٹیکسوں کا بوجھ بڑھانے اورعوام کیلئے ہر طرح کی رعایتیں ختم کرنے کے اقدامات پر آئی ایم ایف حکومتی کارکردگی سے مطمئن دکھائی دیتا ہے مگر عوام کا جینا محال ہو گیا ہے۔ وزیر خزانہ نے ایف بی آر کی ڈیجیٹائزیشن کی بات بھی کی ہے‘ جو ایک ضروری اور درست اقدام ہے کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی بڑھانے کی راہ میںایف بی آر کے مسائل کی وجہ سے بھی بڑی رکاوٹیں تھیں جبکہ ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کے مشکل اور مبہم عمل نے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو عملاً نان فائلر رہنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ ضروری ہے کہ اس معاملے میں ماڈرن پریکٹسز بروئے کار لائی جائیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں