آج عام لوگوں کا دن ہے۔ گزرا ہوا کل خاص لوگوں کا دن تھا۔ ڈبل روٹی‘ بن‘ رس‘ شیرمال سمیت بیکری مصنوعات کی قیمتیں بڑھیں گی۔ جوشاندہ‘ مربے‘ معجون سمیت دیسی‘ حکیمی اور دیہات کی ادویات بھی مہنگی کر دی گئیں۔ ہومیوپیتھک دوائیوں پر بھی ٹیکس لگ گیا۔ پریشانی میں دھواں اُڑانے والے سگریٹ بھی مہنگے ہو گئے۔ کُکڑی اور گائے بیل کی خوراک بھی مہنگی ہو گئی۔ مڈل کلاس کی ہائبرڈ گاڑیاں مہنگی‘ غریبوں کے پلاٹ مہنگے‘ رہائش گاہوں اور کمرشل پراپرٹی پر بھی ٹیکس کا بوجھ لاد دیا گیا۔ یہ سب کچھ خاص لوگوں نے عام لوگوں کے خلاف کیا۔ عام لوگ 25 کروڑ ہیں۔ ان کے باپ دادائوں نے پاکستان بنانے کے لیے تین جنگیں لڑ کر لہو کے نذرانے دیے۔ جن میں سے پہلی جنگ 1857ء کی جنگِ آزادی تھی۔ جسے آزاد ہندوستان پر قابض فرنگی نے ''غدَر‘‘ قرار دیا۔ جس کامطلب تھا: غداروں کی بغاوت۔ دوسری جنگ 1945ء میں لڑی گئی‘ جسے دوسری عالمی جنگ کہتے ہیں۔ تیسری جنگ 1947ء میں اختتام پذیر ہوئی۔ ان تینوں جنگوں کا ایندھن عام عوام اور عام لوگوں کے بچے تھے۔ جبکہ خاص لوگ اور اُن کے بچے 1857ء میں برٹش انڈیا گورنمنٹ کے وفادار بنے۔ وفاداروں نے غداروں کے ساتھ جو ہاتھ کیا اُس کا ثبوت 1938ء سے 1945ء تک لڑی جانے والی دوسری عالمی جنگ سے ملتا ہے۔ جب خاص لوگوں نے عام لوگوں کے بچے برٹش فوج میں بھرتی کرائے اور اُن کے بدلے میں اپنے بچوں کے لیے پنجاب کے دریائوں کے کنارے پر واقع انتہائی زرخیز زرعی زمینیں الاٹ کروا لیں اور خاندانی جاگیردار بن بیٹھے۔ کھوتی کی جگہ انگریز کی عنایت سے ملی ہوئی گھوڑی پر چڑھے اور دھوتی کی جگہ لاچہ اور پَگّ پہن لی۔ آزادی سے پہلے آزادی کی آخری جنگ بنگال‘ یو پی‘ دہلی اور پنجاب میں لڑی گئی۔ جس کے نتیجے میں دنیا کی سب سے بڑی پاپولیشن مائیگریشن کا رُلا دینے والا واقعہ ہوا۔ درحقیقت یہ صرف ایک واقعہ نہیں تھا بلکہ اس ایک واقعہ کے اندر عصمت دری کے ہزاروں واقعات ہوئے۔ اَن گنت لاشے گرائے گئے۔ ہزاروں بچے یتیم کر دیے گئے۔ ہزاروں اپنے ماں باپ سے بچھڑ کر رہ گئے۔ پنجاب کے پنج زرعی دریا ستلج‘ بیاس‘ راوی‘ چناب اور جہلم‘ ان پانچوں دریائوں کے کناروں کے بیلے لاشوں اور انسانی خون سے بھر گئے۔ NWFP کا صوبہ ریفرنڈم کے ذریعے پاکستان میں شامل ہوا۔ سندھ اسمبلی نے پاکستان کے حق میں شرکت کی قرارداد پاس کی جبکہ بلوچستان کے گرینڈ جرگے نے پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیا۔ اس طرح یہ چاروں صوبے چڑھدے اور لہندے پنجاب جیسی خانہ جنگی سے محفوظ رہے‘ جس نے مشرقی پنجاب اور مغربی پنجاب میں تاریخ کی سب سے بڑی تباہی اور بربادی برپا کر چھوڑی۔ بجلی‘ پٹرول‘ ڈیزل‘ مٹی کا تیل‘ گیس‘ زندگی‘ موت‘ زچّہ بچہ کے استعمال کی تمام چیزیں‘ موبائل فون اور بیرون ملک سفر اب پاکستان کے عام لوگوں کی پہنچ سے دور کر دیا گیا ہے۔
اب آئیے! ایک فیکٹ شیٹ دیکھ لیتے ہیں‘ جس میں پاکستان کی بدنامِ زمانہ‘ بدترین‘ بے رحمانہ اور بے ڈھنگی ٹیکسیشن کے بعد 2023ء سے پاکستان سرفہرست ہے۔ یہ رینکنگ شیٹ اُن ممالک کی ہے جن کو Country with the lowest salaries کہا گیا تھا۔ اس رینکنگ میں سرفہرست آنے کی وجہ پاکستان میں چھوٹے اور درمیانے سرکاری ملازموں کو دی جانے والی تنخواہ ہے جو محض 132.65 یو ایس ڈالر بنتی ہے۔ فیکٹ شیٹ کے چوتھے نمبر پر سری لنکا آتا ہے‘ جہاں ملازمین کی تنخواہ 173.53 ڈالر ہے۔ جبکہ افریقہ کے غریب ترین ممالک میں سے ایک‘ ایتھوپیا کا نمبر آٹھواں آتا ہے۔ جہاں پہ ملازمین کی تنخواہ 209.73 یو ایس ڈالر ہے۔ پندرہویں نمبر پر ہمارا پڑوسی ملک ایران ہے۔ ایران پہ پچھلے 35 سالوں سے امریکہ‘ برطانیہ اور اُس کے حامی ممالک نے ہر طرح کی معاشی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ اس کے باوجود بھی ایران میں تنخواہ کی اوسط ہم سے کہیں آگے‘ 306.99 یو ایس ڈالر بنی۔ کون نہیں جانتا کہ کریمیا کی جنگ سے لے کر آج تک یوکرین‘ روس کے خلاف امریکہ‘ برطانیہ اور یورپ کی پراکسی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس کے باوجود اُس کے ہاں تنخواہ387.19 یو ایس ڈالر ہے اور اُس کا نمبر 21واں بنتا ہے۔ کم ترین تنخواہ کی اس عالمی رینکنگ میں ستائیسویں نمبر پر ایک ایسا ملک آتا ہے جس نے پورے عشرے تک یورپ کی خونریز ترین خانہ جنگی دیکھی اور بھگتی۔ یہ ہے کوسوو‘ مگر یہاں تنخواہ آج بھی 429.73 یو ایس ڈالر ہے۔ مڈل ایسٹ کے برادر مسلم ملک عراق پر دہری اُم الحرب مسلط کی گئی۔ جس میں درجنوں ممالک نے عراق کے خلاف حصہ لیا۔ ان دونوں جنگوں‘ اُم الحرب الاول اور اُم الحرب الثانی میں دس لاکھ سے زیادہ عراقی بچے یتیم ہو گئے۔ ساری دنیا کے کرائے کے فوجی بھرتی کر کے نیٹو اور امریکہ کے حامیوں نے ساری دنیا کے ہتھیار عراق پر برسائے۔ لیکن عراق آج بھی اپنے عام لوگوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ جہاں اوسط تنخواہ 537.95 امریکی ڈالر دی جاتی ہے۔
اب آئیے گزرے ہوئے کل والے خاص لوگوں کے کل کی طرف‘ جنہوں نے پاکستان کے عام لوگوں کی جیبوں پر دن دہاڑے ایک اور ڈاکا ڈالا۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان کی سویلین اور نان سویلین مقتدرہ‘ ایگزیکٹو‘ جوڈیشری اور بڑی تعداد میں سرکاری اور درباری میڈیا Tax Payers money میں سے لاتعداد مفت مراعات‘ سہولتیں‘ رہائشی پلاٹ‘ نوکری میں اور بعد از ریٹائرمنٹ سہولتیں لے رہے ہیں۔ عام آدمی کے مقابلے میں ان خاص لوگوں کو سب سے مہنگی چیزیں بالکل مفت میں ملتی ہیں۔ یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ پاکستان میں تیل کا کوئی کنواں نہیں چلتا جس کے پیٹرو ڈالر سے ایلیٹ مافیا عیاشی کر سکے۔ یہ سب پیسے میری اور آپ کی جیبوں سے جائیں گے۔ بے دردی اور بے شرمی کی انتہا یہ ہے کہ ہڑتالیں کیں ملازموں نے اور سہولتیں اور تنخواہ زیادہ ہوئی بیورو کریٹس اور پارلیمنٹیرینز کی۔ قوم کے ساتھ شوباز راج میں یہ شعبدہ ہوا کہ لاء میکر کو منی میکر میں تبدیل کر دیا گیا۔
آج پورے ملک میں غریب‘ مڈل کلاس اور کاشتکار‘ بے روزگار‘ دیہاڑی دار اور مزدور سخت پریشان ہے۔ سمال ٹریڈرز‘ بڑے بزنس مین اور SME والے حیران اس بات پر ہیں کہ خاص لوگوں کی اُن کے ساتھ دشمنی کیا ہے؟ اسی لیے بغیر کسی سیاسی جماعت اور قائد کے پورے پاکستان میں لوگ ایک دوسرے کو ہڑتال کے لیے کہہ رہے ہیں۔ جس کے لیے آج (یکم جولائی) کا دن چُنا گیا۔ پوری قوم کا مطالبہ ہے‘ سالانہ سرکاری 34 کروڑ فری یونٹس بند کرو۔ 300 یونٹس تک اپنے وعدوں کے مطابق تمام ٹیکس ختم کرو۔ بجلی کی قیمت فی یونٹ10 روپے کرو۔ ہرتال کا حق 1973ء کے دستور سمیت ساری دنیا کے دساتیر دیتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں: دو ہزار ارب ہمارے چولہے جلائے رکھنے پر خرچ کرو۔ 9 ارب سے زیادہ قرض کی واپسی پر لگانے کے بجائے کرپشن سے کمائے ہوئے 10 ہزار ارب فوراً واپس لائو۔ کچھ باتیں ایسی ہی ساحر لدھیانوی بھی کر گئے۔
من و سلویٰ کا زمانہ جا چکا
بھوک اور آفات کی باتیں کریں
تاجِ شاہی کے قصیدے ہو چکے
فاقہ کش جمہور کی باتیں کریں